عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش کی پیدائش آزاد کشمیر کے چک ٹھاکرہ کے علاقہ کھڑی شریف میں ہوئی فقیری اور درویشی آپ کے خون میں شامل تھی
آپ سرکار کے والد میاں شمس الدین اپنے علاقے کے ایک فقیر حضرت عبداللہ غازی دمڑی والی سرکار کے مرید اور جانشین تھے
میاں محمد بخش ابتدائی ہی میں اپنے والد کی روحانی شخصیت سے مستفیض ہوئے اور بعد میں حافظ ناصر اور حافظ محمد علی سے فیض یاب ہو ے اپنے والد کی وفات کے بعد سجادہ نشین بنے اس کیساتھ آپ نے تصانیف وتالیف کا سلسلہ جاری کیا
سی حرفیاں، دوہڑے، مرزاصاحباں، سیف الملوک، تحفہ میراں اور گلزارِ فقیر ودیگر کتابیں لکھیں لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت کی وجہ سیف الملوک بنی اس داستان میں میاں محمد بخش نے عشق حقیقی کو عشق مجازی کے دل کش رنگ اور اسلوب میں پیش کیا.
کلام کی سادگی اور سلاست، زبان کی شیرینی اور چاشنی، جذبات نگاری، واقعہ نگاری، منظر نگاری اس داستان کو فکر کے ساتھ ساتھ فنی لحاظ سے بھی معرکہ آرا ادبی شاہکار بناتی ہے ادبی اوصاف کی
وجہ سے سیف الملوک میاں محمد بخش کو ایک صوفی بزرگ کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوے شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے لاتی ہے
تصوف نام یے خالق سے مخلوق کے تعلق کا، ایک صوفی کی روحانی اور ذہنی تربیت چوں کہ انسانی آبادی سے دور ایسے فطری ماحول،فضا اور آب ہوا میں ہوتی ہے،
جہاں جنگل، پہاڑ، چشمے چرند پرند بہتات اور کثرت سے ہوتے ہیں اس لیے صوفی شاعر اور بزرگ اپنی شاعری اور کلام میں انسانیت یا انسان دوست، دنیا کی بے ثباتی، حکمت فلسفہ دانائی، زندگی کے احساس اور شعور کو فطری انداز میں لے کر سامنے لاتے ہے.
لوئی لوئی بھر لے کڑیے جے تد بھانڈا بھرنا
شام پیئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا.
دن دن گاگر،بھر لے کڑیے، شام کو اگر بھرے گی،
شام بغیر جو شام آئے گی، مارے خوف مریگی.
سرکار عارف کھڑی میاں محمد بخش رحمت اللہ علیہ نے خاص انداز باخبر کیا ہے گاؤں دیہات کے ماحول کی خوبصورت تصویر بھی سامنے رکھی. گاؤں دیہات کی لڑکیاں مغرب سے پہلے پہلے پنگھٹ، کنواں، چشمہ سے گھڑے اور گاگریں
بھر کر اپنے گھروں کو واپس پہنچنے کی کوشش کرتیں تھیں موجود دور میں بھی بعض پہاڑی علاقوں میں کشمیر کے بھی کچھ دیہاتی علاقوں میں پانی بھر کر سر پہ اٹھایا جاتا ہے
سرکار عارف کھڑی ہمیں یہ بات سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ دنیا کی زندگی ایک مہلت اور نعمت ہے، دنیا آخرت کی کھتی ہے. وقت سے پہلے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے
اور نیک اعمال، موت کے وقت اور بعد میں اعمال صالح کا وقت ختم ہو جاتا ہے. ہمیں اسی زندگی میں آخرت کی تیاری کر لینی چاہیے.
سدا نہ باغ میں بلبل بولے، سدانہ باغ بہاراں
سدانہ حسن جوانی قائم، سدانہ صحبت یاراں
اس شعر باغ بلبل، بہاریں سب خوبصورتی کے معنوں میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں. میاں محمد بخش فرماتے ہیں یہ دنیا غیر حقیقی عارضی اور فانی تصویروں کا ٹھکانہ ہے
یہاں کسی شے کو ثبات نہیں. سرکار عارف کھڑی اس لحاظ سے بھی آعلی پائے کے شاعر ہیں کہ انھوں نے عام آدمی کو سمجھنا نے کیلیے سادہ ترکیب برتی ہے
انسانی رویے کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کو ہدایت و رہنمائی سے روشناس کرایا. چرخہ، ترنجن، کنواں اور ان جیسے بے شمار انسانی زندگی سے متعلق استعارات لے کر انھیں تصوف و معرفت کے رنگ میں ڈھال دیا.