67

چاکرہ راولپنڈی بنیادی سہولیات کا فقدان

مرکزی شہر سے چند کلو میٹر فاصلے پہ قائم چاکرہ ایک وقت تھا گاؤں کا منظر پیش کرتا تھا مگر بڑھتی آبادی نے یہاں کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے بالخصوص اسلام آباد سیکٹرز اور مختلف نجی سوسائٹیز نیو ائیرپورٹ منصوبہ کے پیش نظر یہ علاقے کے لیے مرکزی سڑک بنیادی ضرورت بن چکی ہے

کئی ہزار نفوس پہ مشتمل آبادی کے لیے کئی عرصہ قبل سڑک کو بنایا گیا تھا جو کہ آج جس حالت میں موجود ہے وہ انتہائی قابل توجہ ہے پرانا چاکرہ،نیو چاکرہ دو مرکزی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں درمیان میں بعض مقامات پہ پیوندکاریاں کی گئی ہیں مگر اس سے کوئی بہتری نہیں آئی جب متعلقہ محکمہ سے رابطہ کیا جاتا

تو روایتی انداز میں تسلی دی جاتی ہیں اور عملی میدان میں خاطر خواہ کوئی کام تا حال نہیں ہو سکا۔چاکرہ روڈ سے ملحق سادہ روڈ کی حالت اس سے بھی ابتر ہے ہیوی ٹریفک روڈ کو مختلف منصوبوں کے لیے کریدا جاتا رہا ہے اس حوالے سے بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں روڈ بن جائیں اور ان کو بعد میں مختلف محکمے کھود کر کھنڈر بنا دیتے ہیں

روڈ بننے سے قبل کچھ تیاری ہو یا روڈ سے ملحق کوئی پائپ ایسا ڈال دیا جائے جس میں یہ تمام امور ممکن ہوں اور روڈ کو نقصان نہ ہو ہم چیز بنا لیتے ہیں مگر اس حوالے سے ہمارا عمومی رویہ بلکہ عوامی رویہ درست نہیں ہے

اس حوالے سے شعور کی ضرورت سے انکار نہیں ایسا بھی نہیں ہم سارا ملبہ فقط سیاسی قیادت پہ گرا دیں ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ہم اپنا کچرا گلی کے سپرد کر دیں۔دوسری اہم انسانی ضرورت پانی کی ہے

مختلف جگہوں پہ پائپ لائن بھی لگائی گئی مگر اس کو فعال نہیں کیا گیا سیاسی رسہ کشی کی نظر اسی طرح گیس کا منصوبہ بھی نامکمل ہے بلدیاتی نظام کی غیر فعالی سے بھی کئی منصوبے مکمل نہیں ہو سکے

ٹینکر مافیا بھی اس علاقے میں عروج پہ ہے اور ضرورت بن چکا ہے کچھ سال قبل چہان ڈیم کے حوالے سے بتایا جاتا تھا اس کی سپلائی اس علاقے کو دی جائے گی دیکھئے اس حوالے سے سیاسی قیادت کیا عمل در آمد کرتی ہے۔

تعلیم کا شعبہ آج کاروبار بن چکا ہے ریاست کی ذمہ داری کیسے نبھائی جائے سرکاری سکول ناکافی ہے دو شفٹوں میں تعلیم کا عمل جاری ہے اس موقع پہ نجی ادارے غنیمت ہی جو تعلیمی ضر ورت کو پورا کر رہے ہیں

اس حوالے سے حکومتی پالیسی ایسی ہو جس سے تعلیم عام ہو آسان ہو تا کہ مدارس اسلامیہ کا کردار بھی بہت اہم ہے بہت بڑی تعداد ان اداروں سے وابستہ ہیں مگر نقاص پالیسی ہمارے ایسے اداروں کو پروموٹ نہ کر کے مستقبل کا نقصان کرتے ہیں۔

صحت کا شعبہ بنیادی شعبہ ہے گرجا ڈسپنسری کے نام سے مرکز صحت قائم ہے اگر اس کو اپ گریڈ کیا جائے تو
خاطر خواہ سہولیات اس علاقے کو مل سکتی ہیں کچھ عرصہ قبل ایک بڑے ہسپتال کی نوید سنائی جاتی تھی

نہ جانے کب شرمندہ تعبیر ہو اگر ایسا ہو تو بہت اہم اقدام ہو گا صحت کے حوالے سے۔سیاسی حلقہ کی تقسیم بھی اس علاقے کی بدحالی کی وجہ رہی ہے اب بھی ٹیکسلا کے ساتھ یہ حلقہ منسلک ہے ماضی میں بڑے نامور سپوت اس حلقے سے جیتتے رہے ہیں

مگر ورکنگ نہیں ہو سکی یا ضرورت محسوس نہیں کی گئی اب اس مرتبہ ایک پڑھی لکھی قیادت کا سنا ہے محترم بیرسٹر عقیل ملک صاحب جو ملکی حوالے سے اہم کارکردگی دکھا رہے ہیں

امید اپنے حلقے کی شنوائی بھی کریں گے قانون دان ہیں عوامی حقوق کو بہتر سمجھ سکتے ہیں چاکرہ میں ابھی تک کوئی ورک میرے علم میں فی الحال نہیں ہے اور جیتنے کے بعد شائد فرصت میسر نہیں آئی امید کرتے اس سے غور وفکر کیا جائے گا

میں تمام تر سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر یہ عرض کر رہا ہوں نہ تو تنقید کی پرواہ نہ صلہ کی امید اسی طرح محترم محسن ایوب صاحب بھی امید ہے وزیر اعلی پنجاب کے وزن کو لے کر ائیں گے

مجھے صحت پروگرام کی گاڑیوں کے علاوہ اس علاقے میں بڑا پراجیکٹ نظر سے نہیں گزرا جس پہ ہم کسی سیاسی لیڈر کو خراج تحسین پیش کر سکیں ہمارے قریب کینٹ بورڈ کا ایریا بھی منسلک چوھدری شکور احمد صاحب بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں باقی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیات سے گزارش ہے

کہ اس حلقے کی محرومیاں کب تک یوں ہی رہیں گی۔ آپ اپنے حصے کا کردار ادا کریں گے تو یہ حل کی طرف بڑھیں گے آپ کے قریب کے حلقے میں کام ہو رہے ہیں مگر اس حلقے کو اولا ہی سیاسی تقسیم میں بالکل آخر میں رکھ دیا گیا ہے

یہاں بھی انسان بستے ہیں یہاں کے مکین بھی پاکستان کے شہری ہیں یہاں سے سیاسی قیادت نے ووٹ لیے ہیں اور آج اقتدار میں ہیں اس کے علاوہ بھی بجلی سڑکوں کے مسائل ہیں۔مرکزی مساجد کی گلیاں تک پختہ نہیں ہیں

مساجد کا فنڈ سیاسی بندر بانٹ کی نظر ہوا اس حوالے سے علاقہ چاکرہ امام اعظم علماء کونسل چاکرہ راولپنڈی کی قیادت نے باضابطہ اجلاس کیا

اور اعلامیہ بھی جاری کیا جس میں ان تمام امور مندرجہ بالا کے حوالے سے عملی ورکنگ کا کہا گیا بصورت دیگر عوامی احتجاج کی صورت میں اپنے حقوق کی آواز کو بلند کیا جائے گا

اس حوالے سے امیر کونسل حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب و صدر کونسل ہیر عبدالرشید ھزراوی صاحب و مولانا سلطان بٹ صاحب و مولانا سیف اللہ خالد صاحب و مولانا سیف اللہ ناصر و مولانا جمیل بٹ صاحب و مولانا قاری
حبیب اللہ صاحب و مفتی عبدالمنان صاحب و مفتی عبدالودود ابدالی سمیت دینی

و سماجی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا علاقے کی صورتحال پہ تشویش کا اظہار کیا بالخصوص روز بروز بڑھتی واردتیں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں حلقے کی قیادت اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرے

ان شاء اللّٰہ ہمارا تعاون رہے گا ماضی میں بھی ہمیشہ علاقے کی دینی دنیاوی ضرورت کے لیے آواز بلند کی تھی ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔. اللہ کرے ایسا نہ ہو وہ کسی شاعر نے کہا تھا۔

صرف بھاشن ہیں میرے سب وعدے
جیت کر سب میں بھول جاتا ہوں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں