63

دھرنوں‘جلسوں میں سرکاری وسائل کا استعمال

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ملک کے سیاسی حالات وواقعات دلی افسوس کا بنتے جارہے ہیں عوامی مفاد کے نام پر ذاتی مفادات کی جنگ ہر طبقہ فکر میں تشویش کا
باعث ہے جبکہ خوش امیدی‘خوشحالی اور خوشگوار

مستقبل کی ضمانت سے عوام کا دامن ہنوز خالی ہے اور خوش مزاجی کہیں روٹھ کے بیٹھ گئی ہے عالمی دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو طاقت کی راہ کشی بااختیار طبقے کے لیے ایک دلچسپ کھیل سہی

لیکن یہ فرق نمایاں نظر آتا ہے کہ اس کھیل سے کہیں بھی عوام براہ راست متاثر ہوتے نظر نہیں آتے۔وہاں ہر کام قانون اور آئین کے دائرے میں جاری رہتا ہے

یہی سبب ہے کہ ان کی نہ معیشت تباہ ہوئی نہ ترقی کے تناظر میں کوئی تنزلی محسوس ہوئی جبکہ پاکستان میں آئین اور ملک وقوم کے مفاد کے نام پر سب کچھ تباہ کیا جارہا ہے

ظلم ودرندگی بڑھ رہی ہے اس وقت ہم اپنی تاریخ کے بھیانک ترین دورمیں زندہ ہیں بھوک اور افلاس کی تصویر بنے غریب عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسائے جانے کو بھی حکمران طبقہ خدمت اور عبادت قرار دیتا ہے

اس سے قبل نئے پاکستان کے نعرے پر آنے والوں نے اپنے چار سالہ دور میں ماسوائے دوسروں کی عیب جوئی کے اور کچھ نہیں کیا یورپ کی مثالیں دینے والوں کی اپنے مثالیں شرمناک رہیں۔

کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے سو روز میں کرپشن خاتمے کا دعویٰ کیا لیکن اپنے دور میں کرپشن کے وہ ریکارڈ قائم کیے جو پچھلی تاریخ کو شرما گئے۔تاریخ میں پہلی بار رشوت میں ہیرے لینے کی روایت متعارف کروائی گئی۔

ٹرانسفر پوسٹنگ پر کروڑوں اربوں کمائے گئے۔190 ملین پاؤنڈ‘فارن فنڈنگ کیس اس سے زیادہ شرمناک ثابت ہوئے لیکن پوری ڈھٹائی سے خود کو آج بھی فرشتہ ثابت کیا جارہا ہے۔

اس وقت بھی جیل میں ہونے کے باوجود قومی خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ کے دیسی مرغ‘ بکرے‘ دیسی ھی‘کوکونٹ آئل ڈکار کر قوم کو اپنی مسیحائی کا پیغام دیا جارہا ہے

کچھ اقتدار میں ہیں اور کچھ اپوزیشن میں‘اپوزیشن ایک صوبے کے وسائل خرچ کرکے دھرنے‘ جلسے اور یلغار سے حکومت گرا کر خود برسراقتدار آنا چاہتی ہے اور حکومت اقتدار میں رہنے کے لیے قومی خزانے سے کروڑوں خرچ کرکے یلغار روکنے کی کوشش میں ہے۔

اس سارے ماحول میں عوام کہاں ہیں کیا کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی عوامی بھلائی اور عوامی مشکلات پر بات کی آج تک کسی نے بڑھتی مہنگائی پر ہڑتال یا دھرنا دیا؟ایک جماعت اسلامی بارے کہا جاسکتا ہے

کہ وہ عوامی مسائل پر بات بھی کرتی ہے عوام کی خدمت بھی کرتی ہے اور عوامی مسائل پر دھرنے بھی دیتی ہے۔اب عوام کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ اپنے اپنے چوروں کا دفاع کرتے ہیں

یا اپنے مفاد کے لیے یکجان ہوکر اپنے حقوق کے لیے ازخود تحریک کا فیصلہ کرتے ان تمام مفاد پرستوں کے خلاف جو ہمیں استعمال کرکے اپنے مفادات سمیٹتے ہیں۔نہ اقتدار والے مخلص ہیں

اور جیل میں قید ہمارا خیر خواہ ہے۔ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ان سب کی چھاتیوں پر پاؤں رکھ آگے بڑھنا ہوگا۔ورنہ یہ اپنا کھیل اسی طرح کھیلتے رہیں گے اور ہماری آئندہ نسلیں بھی ان کی ہوس کا ایندھن بنتی رہیں گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں