ادارہ شماریات پاکستان نے سال 2023ء میں ملک بھر میں کی جانیوالی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ملک میں بولی جانے والی مختلف مادری زبانوں پر رپورٹ جاری کی ہے
،جس کے مطابق ملک بھر میں پنجابی بولنے والے8کروڑ 89 لاکھ،پشتو بولنے والے4 کروڑ 36لاکھ،سندھی بولنے والے 3کروڑ 44 لاکھ،سرائیکی بولنے والے2کروڑ 88 لاکھ،اردو بولنے والے 2کروڑ 22لاکھ،بلوچی بولنے والے 81لاکھ 17ہزار،ہندکو بولنے والے55لاکھ 90ہزار
براہوی بولنے والے 27لاکھ 78ہزار،کوہستانی بولنے والے 10لاکھ 39ہزار،کشمیری بولنے والے دو لاکھ 74ہزار،شینا بولنے والے ایک لاکھ 16ہزار،بلتی بولنے والے52 ہزار 134 افراد،کیلاش بولنے والے 7ہزار 466افراد موجود ہیں جبکہ ملک میں 33لاکھ 37ہزار افراد ایسے بھی ہیں
جو دیگر مادری زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں۔رپورٹ جاری ہوتے ہی ہمارے بعض پوٹھوہاری شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا
کہ پوٹھوہاری زبان کیساتھ ناانصافی کرتے ہوئے مادری زبانوں کی رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا،ہمارے ایک بہت پیارے بھائیوں جیسے دوست جوخطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھتے ہیں
اردو کے شاعر اور کالم نگار ہیں انہوں نے توحقائق جانے بغیر ہی اپنے فیس بک اکاؤنٹ پرانتہائی نامساعد حالات میں بھی پوٹھوہاری زبان کیلئے اپنا وقت اورپیسہ صرف کرنیوالوں پرتنقید کرتے ہوئے
یہاں تک لکھ ڈالا کہ ”کہاں ہیں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھ کر”ماں بولی ماں بولی“پوٹھوہاری کی تکرار کرنے والے آج ادارہ شماریات نے ملک میں بولی جانے والی مادری زبانوں کی جو فہرست جاری کی اس میں پوٹھوہاری کا ذکر نہیں ہے،پوٹھوہاری بولی ہے یا زبان، اس پر تو بحث بہت بعد میں ہو گی
ایک دوسرے کو نِت نئے القابات سے نوازنے والے ادارہ شماریات کے ریکارڈ کو درست کرانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائیں گے؟؟“ہمارے بڑے بھائی ثاقب امام رضوی نے پوسٹ شیئر کی کہ”ادارہ شماریات پاکستان کا خطہ پوٹھوہار کی تاریخی اہمیت کے باوجود اس کو نظر انداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے
، پاکستان میں تقریبا 76 زبانیں ہیں جس میں تقریبا ایک کروڑ لوگوں کی زبان پوٹھوہاری ہے۔اس تاریخی اور قدیم زبان میں قرآن پاک کے تراجم سمیت سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور متعدد کو صدارتی ایوارڈز سمیت کئی انعامات مل چکے ہیں اس زبان کی کئی ایک لغات بھی موجود ہیں
،پوٹھوہار کی دھرتی چار نشان حیدر اپنے سینے پر سجائے ہوئے ہے۔اس دھرتی کی زبان پوٹھوہاری ہے ادارہ سے استدعا ہے کہ فوری طور پر اس قدیم زبان کو شماریاتی جدول میں شامل کریں
بصورت دیگر یہاں کے غیور عوام اسکی بھر پور مزاحمت کریں گے اور اس ضمن میں پوٹھوہاری ادبی اور سماجی تنظیمیں اپنا لائحہ عمل مرتب کریں گی۔“اب آتے ہیں اصل حقائق کی طرف،مردم شماری قومی سطح کا معاملہ ہوتا ہے،
مردم شماری کی ابتدائی جزئیات کی منظوری کیلئے وزیر اعظم کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوتا ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود ہوتے ہیں،اس اجلاس میں ملک بھر میں مردم شماری کرانے کی باقاعدہ منظوری دی جاتی ہے
، 13جنوری 2022کواس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے 49ویں اجلاس میں 7 ویں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دے دی گئی۔
اجلاس میں وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء کے علاوہ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، تمام صوبائی چیف سیکرٹریز، چیئرمین نادرا، چیف کمشنر اسلام اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے، اسی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ ساتویں مردم شماری ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، جی آئی ایس مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے ہوگی
۔2023کی ڈیجیٹل مردم شماری کیلئے ادارہ شماریات نے جب دفتری استعمال یا ابتدائی ایجنڈے کیلئے مردم شماری فارم تیار کیے تو ان میں پوٹھوہاری بھی بطور زبان شامل تھی
،جسکی بھنک پوٹھوہاری مخالف لسانی تنظیموں کو پڑی تو انہوں نے ادارہ شماریات کے انتظامی سربراہان کے نام مذمتی خط لکھنے کیساتھ ساتھ ملاقاتیں بھی کر کے یہ باور کرا دیا کہ پوٹھوہاری لہجہ ہے الگ زبان نہیں،جس پر اس ابتدائی فارم سے پوٹھوہاری زبان کو نکال دیا گیا،(یہ مذمتی خطوط اور ابتدائی فارم راقم کے پاس محفوظ ہیں)
۔پوٹھوہاری زبان کے ابتدائی فارم سے اخراج کی خبر پر راقم اور نعمان رزاق وڑائچ نے ادارہ شماریات کے ہیڈ آفس جاکر صورتحال جاننے کی کوشش کی تووہاں موجودہمارے ذرائع نے بتایاکہ اب انتظامات تو تقریباََفائنل ہوگئے ہیں لیکن عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے آپ ایک کوشش کرکے دیکھ لیں شاید کوئی حل نکل آئے
،میری اور نعمان رزاق وڑائچ کی اپنی دفتری مجبوریاں تھیں جس پرفیصلہ یہ ہوا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینئر پوٹھوہاری ادیب شریف شاد،غلام فاروق اعوان ایڈوکیٹ کے ذریعے رٹ پٹیشن دائر کرینگے
۔اسکے ساتھ ساتھ پوٹھوہاری ماہر لسانیات یاسر کیانی کے ذریعے پوٹھوہاری کے جداگانہ تشخص پر ایک تفصیلی مضمون بھی تیار کرایا گیا جوپٹیشن کا حصہ بنایا جانا تھا،رٹ پٹیشن دائرکرنے کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ادارہ شماریات کی اس ناانصافی کیخلاف آگاہی مہم چلائی گئی
،ایک رٹ پٹیشن فرزند علی ہاشمی نے بھی راجہ سجاد ایڈوکیٹ کے ذریعے دائر کی جس پر دونوں رٹ پٹیشنوں کو یکجا کردیا گیا اور20 نومبر2023کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں مردم شماری کے حوالے سے کہا کہ رواں مردم شماری تو اب ہوچکی ہے،آئندہ جب ملک میں مردم شماری کا ڈول ڈالا جائے
تو دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جائے،پوٹھوہاری سے قبل 22مارچ 2023کو پشاور ہائیکورٹ نے بھی گوجری زبان کو مردم شماری میں شامل کرنے کا فیصلہ سنا رکھا تھا لیکن وہ بھی 2023کی ڈیجیٹل مردم شماری میں شامل نہیں ہوسکی،اسکی وجہ یہی تھی کہ ملک بھر میں مردم شماری جاری تھی
اور جب کئی طرح کے قانونی مراحل طے کرکے کسی قومی سطح کی مہم کاآغاز کیا جاتا ہے تو پھر اس میں ردو بدل یا اضافہ اتنا آسان نہیں ہوتا ہمیں ”دو دو چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھ کر”ماں بولی ماں بولی“پوٹھوہاری کی تکرار کرنے والے“کا طعنہ دینے والے دوست ساتھ یہ بھی بتا دیں
کہ جب مردم شماری سے قبل ہم ”دو دو چار چار“دوست عدالتی چارہ جوئی کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائے ہوئے تھے تو اس وقت یہ کہاں تھے؟کوئی ایک اظہار یکجہتی کی پوسٹ یا کمنٹ اگر کیا
ہویا اس ناانصافی کیخلاف کوئی کالم لکھا ہو تو ہمیں بھی بتائیں،اب رپورٹ جاری ہونے کے بعد اس پر اعتراض یا نکتہ چینی کر نا بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں،یہ وہی ”مکا“ہے
جو لڑائی ختم ہونے کے بعد یاد آتا ہے۔کسی بھی ادارے یا فرد کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ ان ہی نکات کا احاطہ کرتی ہے جوکوئی بھی عمل یا سرگرمی سے قبل بنائے گئے ڈرافٹ میں موجود ہوتے ہیں،پوٹھوہاری جب اس ڈرافٹ میں موجود ہی نہیں تھی تو پھر اسکی بنیاد پر بنائی گئی رپورٹ پر ہنگامہ سمجھ سے باتر ہے
،نادرا کا معاملہ ہو یا مردم شماری کاہمارے بہت سارے پوٹھوہاری دوست جب بولنے کا وقت ہوتا ہے اس وقت چپ سادھے رکھتے ہیں اور جب ناکامی یا کامیابی مل جاتی ہے تب اس پر رد عمل دیتے ہیں لیکن تاریخ انہی کو یاد رکھتی ہے جو بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پوٹھوہاری اور دیگر علاقائی زبانوں کے حوالے سے ہونیوالی ہر پیش رفت پرہم ”دو دو چار چار“دوست الحمداللہ آگاہ رہتے ہیں اور حسب توفیق اپنا اپنا حصہ بھی ڈالتے رہتے ہیں،مایوسی کی کوئی بات نہیں،مناسب وقت پر ہم دوبارہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اورانشاء اللہ اگلی مردم شماری میں پوٹھوہاری زبان شامل ہوگی۔