89

نو نومبر فلسفہ اقبال کو سمجھنے کا دن

ازقلم طالش محمود
اقبال کے فلسفہ خودی میں بندہ مومن کی فضیلت،اسکی اعلی صلاحیتوں پر بڑا زور دیا گیا ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ بندہ مومن کے اجزائے ترکیبی میں اگر خودی کا عنصر شامل نہ ہو تو وہ بندہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔فلسفہ خودی کا ایک بڑا عنصر عشق اور عقل کی معرکہ آرائی ہے اور اقبال نے ہمیشہ عشق کی برتری کا اظہار ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
فلسفہ خودی کا ایک اور عنصر خیر و شر کی کشمکش ہے جو کائنات میں ہر آن جاری ہے بالاآخر جیت خیر کی ہی ہوتی۔علامہ ؒ فلسفہ خودی میں زندگی کی جہد مسلسل کو بھی ایک عنصرخیال کرتے ہیں۔ اور انسان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ زندگی میں مسلسل جہد مسلسل کرنے والوں میں شامل ہو۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سِرِّ آدم ہے ضمیر کُن فِکاں ہے زندگی
زمین و آسماں و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں