گزشتہ ایک سال دوران فلسطینی عوام کی صورتحال انتہائی سنگین ہے، جہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بے گناہ افراد شامل ہیں۔
حالیہ مہینوں میں ہونے والے فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں نے خواتین، بچوں، اور بوڑھوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان حملوں میں شہری آبادی کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ غزہ میں ہونے والی تباہی کی داستانیں دل کو چھو لینے والی ہیں،
جہاں ہر روز لوگ اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔
عورتوں اور بچوں پر مظالم کی صورت حال خاص طور پر دل خراش ہے۔ غزہ میں جنگی حالات کی وجہ سے بہت سی خواتین کو اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، جبکہ بچے نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
جنگ کی ہولناکیاں ان کی تعلیم، صحت، اور عمومی زندگی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ بین الاقوامی ادارے، جیسے کہ یونیسف، اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن عملی اقدام کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ فلسطینی بچوں کی زندگیوں میں جنگ کی تصویر کھینچتے ہوئے،
یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں بچپن کی معصومیت سے محروم کیا جا رہا ہے، جس کا اثر ان کی نسلوں پر بھی پڑے گا۔
اس مسئلے میں عالمی طاقتوں کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ، اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئے ہیں، جبکہ دیگر ممالک کی جانب سے اس تنازعے کے حل کے لیے مؤثر کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے کی جانے والی مذمت اور بیانات عملی طور پر کچھ نہیں کر رہے۔
جب کہ اسرائیل کو مختلف اقوام کی طرف سے مالی اور فوجی امداد مل رہی ہے، وہ مزید جارحانہ اقدامات کے لیے حوصلہ افزائی محسوس کر رہا ہے۔ اس صورتحال نے فلسطینی عوام کے لیے ایک تاریک مستقبل کی تصویر کھینچ دی ہے، جس میں ان کے حقوق کی پاسداری کے لیے کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔
اس کے علاوہ، مسلم ممالک کی جانب سے بھی فلسطینیوں کے مسائل پر غفلت برتی جا رہی ہے۔ حالیہ سالوں میں مسلم حکمرانوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں کمزور ردعمل نے لوگوں کی امیدوں کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس وقت جب کہ فلسطینی عوام کو عالمی حمایت کی ضرورت ہے
، مسلم ملکوں کی قیادت کے اندرونی مسائل اور خودغرضی نے انہیں اس اہم مسئلے سے دور کر دیا ہے۔ عرب لیگ جیسی تنظیمیں بھی زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی آواز کو عالمی سطح پر دبایا جا رہا ہے۔
یہ تمام عوامل فلسطینی عوام کے حقوق کی جدوجہد میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ مظالم، بے گھر ہونے اور انسانی بحران کے اس طویل سلسلے نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کیا اقدام اٹھایا جانا چاہیے۔ جب تک عالمی طاقتیں فلسطینی عوام کی حمایت میں ٹھوس اقدامات نہیں کریں گی،
تب تک یہ صورتحال مزید بگڑتی جائے گی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مگر ان کی محنت کو مکمل اثر دینے کے لیے بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
فلسطینی عوام کی جدوجہد ایک علامت بن چکی ہے کہ کس طرح عالمی برادری اپنے اصولوں اور وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ان کے
حقوق کی جدوجہد، جو کہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، اب ایک سیاسی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں ایک طرف مظلوم عوام ہیں اور دوسری طرف طاقتور حکمران۔ اس تنازعے کی جڑوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسئلے کی حقیقی نوعیت کو سمجھا جا سکے اور عالمی سطح پر مؤثر حل تلاش کیا جا سکے۔
فلسطینیوں کی تکالیف نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے، مگر اس کے باوجود عملی اقدامات کی کمی نے ان کی جدوجہد کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے کی جانے والی ناکافی کوششوں نے فلسطینی عوام کے درد کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی خاموشی اور بے حسی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نئی اور مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے،
جو فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرے اور ان کے درد کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ عالمی طاقتوں اور مسلم ممالک کو مل کر ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہوگا جہاں فلسطینی عوام کی آواز سنائی دے سکے، تاکہ وہ اپنے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھ سکیں اور ایک بہتر مستقبل کی امید کر سکیں۔