301

مدارس اسلامیہ کا روشن کردار

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ ۔۔
مری آنکھ کا سرمہ خاک مدینہ و نجف ۔۔

انگریز سامراج نے جب ہندوستان کی سرزمین پہ اپنے نجس قدم رکھے اس سے قبل کی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جاۓ تو یہ بات واضح ہوتی ہے ہندوستان کی سرزمین وسائل سے مالا مال امن و سلامتی کا گہوارہ تھی علوم و فنون اور شرح خواندگی بلند ترین سطح پہ تھی

مکاتب میں ہی تمام طرح کی تعلیم دی جاتی اہل علم کو مشاہرہ ،وظائف سرکاری سطح پہ ملتے تعلیم مفت تھی بلا تفریق تھی طبقاتی تقسیم نہ تھی ایسا نہیں تھا جیسے ہمارے ہاں تعلیم فروشی عروج پہ ہے محض ڈگریوں کے بنڈل اخلاقیات سے دوری سمیت ہر وہ چیز جو یورپ نے ہم پہ بطور عقوبت نافذ کی وہ ہم نے اپنے سینے پہ سجا لی کہ شائد ترقی کا راز اس میں پنہاں ہے ۔۔۔۔ اکبر آلہ آبادی نے خوب کہا

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

انگریز تاجر کی حیثیت سے داخل ہو اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے تخت دہلی تک جا پہنچا جیسے آج اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کے نام پہ مسلم ممالک کا استحصال کر رہا ہے

مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہوا بادشاہ غریب الوطن ہوا شھزادوں کے سر کاث کر پیش ہوۓ کون سا ستم تھا جو وہاں نہیں ہوا

کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے ۔
دو گز زمیں ملی کوۓ یار میں ۔۔

ان حالات و حوادثات کے بعد کیا نقشہ ابھرا ہو گا اور فرنگی کن عزائم سے لیس ہو کر اسلامی تہذیبی ورثے پہ حملہ آور ہوا ہو گا علماء امت نے کن حالات کے اندر امت کا تعلق ڈین سے ٹوٹنے نہیں دیا

وگرنہ ایسے مسلک ممالک بھی موجود جہاں داڑھی رکھنے کے لیے پرمٹ ضروری ہے سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد ترکی میں کیا ہوا آج بھی جدت پسندی کے نام پہ اسلام کی غلط تشریحات کرنے والوں کہ کھیپ موجود ہے سرگرم عمل ہے جو حجاز مقدس میں ابراھیمی ہاؤس کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔۔۔۔

آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ایسے ماحول میں حضرت مجدد الف ثانی رح و حضرت شاہ ولی اللہ رح کے روحانی فرزند میدان عمل میں نظر آتے ہیں دیوبند کی بستی میں انار کے درخت تلے ایسی بنیاد رکھتے ہیں جو سامراجی طاقتوں سے ہر میدان میں برسرپیکار نظر آتے ہیں چاہے

شاملی کا میدان ہو یا بالاکوٹ ریشمی رومال تحریک ہو یا ہندو سماج جیسی متشددین کا مقابلہ ہو دلائل کی دنیا ہو یا میدان کارزار یہ حق پرست وہیں نظر آۓ جہاں دین متین کے لیے قربانیاں دی اور امر ہو گۓ لارڈمیکالے کے تعلیمی نظم کا مقصد فقط ہندوستان میں سستے کلرک ملازم پیدا کرنا کو تاج برطانیہ کی وفاداری نبھانا شامل تھا مگر افسوس آج کا نوجوان اپنے اسلاف سے نا اشناء ہے جس کا گلہ اقبال نے یوں کیا ہے ۔

کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا
تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري
وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا

ہمیں تاریخی حوالے سے جب یہ علم ہو گیا کہ مدارس اسلامیہ کا کردار اس اسلامی تہذیبی کے بقاء و نشر میں بنیادی ہے جس سے یہ تسلسل قائم ہے اس دور میں تو دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن گئ ہے آج کا دور بھی تہذیب کی جنگ کا دور ہے میڈیا کے ذریعے اثرات مرتب ہوتے آج کے اس دور میں بھی سب سے بڑی ویلفیئر مدارس کی شکل میں موجود ہے جس میں کئ لاکھ طلباء علم دین سمیت مختلف فنون سیکھ رہے ہیں

اور عصری حوالے سے قریب وقت مدرسہ کے طلباء نے بڑی جامعات کے طلباء کو روبوٹک مقابلے میں مسلسل شکست سے دوچار کیا اس کے علاوہ کئ اہداف متعین ہیں جسایک واقعہ ذھن میں امڈ آیا حضرت مولانا مفتی محمود رح نے بانی جامعہ اکوڑہ خٹک مولانا عبدالحق رح کو پیغام بھیجا جامعہ ازھر کے شیخ آپ کے مدرسہ کا وزٹ کریں گے مدرسہ میں استقبال کی تیاری کی گئ

جب شیخ جامعہ ازھر دار الحدیث میں داخل ہوۓ تھری( پیس پینٹ شرٹ کلین شیو ) مجمع کی طرف مخاطب ہوا اور اشکبار آنکھوں سے یہ کہا میں تمھیں کیا درس دوں اسلاف کی امانتوں کے امیں تو تم ہو جی قارئین یہ خاص وصف علماء ھند کو اس دور میں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے عطاء کیا ہے جس پہ جتنا بھی شکر ادا کیا جاۓ کم ہے اس حوالے سے علامہ ندوی رح کی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت اور علماء ھند کا شاندار ماضی قابل مطالعہ کتب ہیں ۔۔۔

آ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سنان اول طاؤس و رباب آخر

امت کو جس شعبہ دین میں ضرورت پڑی مدرسہ نے اس ضرورت کو پوری کیا قرآن کریم کی تحفیظ سے لے کر تمام شعبوں میں رجال پیدا کیۓ خطابت کی دنیا کے شاہسوار بھی ملیں گے تفسیر و فقہ و بلاغت و تاریخ سمیت علوم نقلیہ عقلیہ تحفظ ختم نبوت و دفاع صحابہ کرام رض کے عنوان پہ گراں قدر خدمات تاریخ کا وہ باب ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہم آج جو قلم سے وابستگی رکھے ہوۓ ہیں

اس میں بھی مدرسہ کا ہی کردار ہے جس نے ہمیں یہ شعور بخشا ہمارے والدین اساتذہ کرام کا ہی یہ فیضان ہے جس کا ہم ان کو کوئی بدلہ نہیں دے سکتے ہمیں آج بھی آزاد و شورش و تھانوی و عثمانی کی نگارشات میں رھنمائی ملتی ہے جس فکری جہت میں ان نے کام کیا ان شاء اللہ اس تسلسل کو لے کر بڑھیں گے فکر شیخ الھند رح ہی تھی جس کی بدولت انگریز سامراج کا خواب پورا نہ ہوا

لارڈ میکالے کے وضع شدہ نصاب کا بنیادی مقصد ایسے ہندوستانی تیار کرنا جو فکر و تمدن میں یورپ کے مقلد ہوں مدرسہ نے اسلامی تمدن کی بنیاد کو مضبوط کیا آج بھی الحمدللہ اسلام اور اسلام پسندوں کا سر فخر سے بلند ہے وگرنہ ایسے ضمیر فروش بھی تاریخ کا حصہ ہیں جو جاگیر کے عوض فرنگیوں کے غلام بن کر اس وطن کی غداری میں ملوث رہے تاریخ نے ان کے اس سیاہ کردار کو بھی اپنے سینے میں دفن کر لیا سلام ہے اے اسلام پسندو تم نے روکھی سوکھی کھا کر کم وسائل میں رجعت پسندی کے طعنے سن کر بھی دین متین کی خوب چوکیداری کی ۔۔۔

کہسار یہاں دب جاتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں