162

چک بیلی خان میں طبّی سہولیات کا تسلسل

رائے بلوچ خان کی آباد کردہ بستی چک بیلی خان کیلئے شروع شروع میں امراضِ پیچیدہ کیلئے کوئی مستند طبیب موجود نہیں تھا۔گھریلو ٹوٹکوں اور حکیمی نسخوں سے کام چلایا جاتا تھا۔جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اس بستی میں صحت کی سہولیات کی ضرورت محسوس ہوتی گئی یہاں باقاعدہ مرکزِ صحت کے قیام کیلئے میرے پردادا چوہدری لعل خان نے دوڑ دھوپ کی اور حکومتِ وقت سے ایک ڈسپنسری قائم کرنے کی منظوری حاصل کی اور ڈسپنسری کی عمارت کی تعمیر کیلئے اپنی زمین عطیہ کی

۔غالبًا 1925ء میں چک بیلی خان میں ڈسپنسری کا قیام عمل میں آگیا اس ڈسپنسری میں 1992ء تک مریضوں کا علاج ہوتا رہا۔قیامِ پاکستان سے قبل چوہدری لعل خان کی صاحبزادی، صوبیدار ایس کے نیاز کی شریکِ حیات شاہ بیگم نے لُدھیانہ اور پُونا سے نرسنگ کے کورسز مکمل کئے اور چک بیلی خان کی پہلی باقاعدہ نرس بننے کا اعزاز حاصل کرنے والی خاتون بن گئیں آپ نے اُس وقت موجودہ بھارت کے کئی شہروں کے علاوہ ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی میں بطور نرس اپنی خدمات سرانجام دیں بعدازاں گاؤں میں رہ کر یہاں کے افراد کوطبی خدمات فراہم کرتی رہیں

۔کافی عرصہ تک چک بیلی خان میں انگریزی طریقہء علاج سے امراض پر قابو پانے والا ڈاکٹر نمایاں نظر نہیں آتا البتہ اس دوران ڈاکٹر محمد اعظم ہومیو پیتھک طریقہء علاج کے علاقہ میں پہلے معالج بن کر اُبھرے،بعد میں کئی ہومیو ڈاکٹروں نے یہاں اپنے مطب قائم کئے جن میں احمد ضیاء راجپوت، اعجاز احمد، محمد خان اور محمد ریاض نمایاں ہیں۔چوہدری لعل خان کے پوتے،چوہدری مہدی خان کے فرزند ڈاکٹر محمد اقبال راجپوت نے بطور میڈیکل اسسٹنٹ 1950ء میں پاکستان بحریہ میں شمولیّت اختیار کی

وہاں آپ نے پاکستان نیوی ہسپتال شفاء کراچی کے ساتھ ساتھ کئی بحری جہازوں میں طبی خدمات سرانجام دیں، بعد ازاں آپ نے امریکہ سے جِلدی امراض،پبلک ہیلتھ،امراضِ پوشیدہ اور ہسپتال ایڈمنسٹریشن کے کورسز کئے۔چوہدری ارشد محمود بھی بطور میڈیکل اسسٹنٹ محکمہء صحت پنجاب میں ملازم ہوئے اور اسسٹنٹ میڈیکل آفیسر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔آپ کی صاحبزادی لیڈی ڈاکٹر قرا ت العین اب محکمہء صحت حکومتِ پنجاب میں طبی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ہومیو ڈاکٹر احمد ضیاء راجپوت اس سے قبل بطور میڈیکل اسسٹنٹ وفاقی محکمہء صحت اور محکمہء صحت پنجاب میں ملازمت کر چکے ہیں۔

چک بیلی خان میں بنیادی مرکزِ صحت کا قیام نوے کی دہائی میں ہوا اس وقت اس مرکز میں عام بیماریوں کے علاج کے علاوہ زچہ وبچہ مرکز چوبیس گھنٹے کام کررہا ہے جہاں نرسیں اور دائیاں اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے موجود رہتی ہیں۔چنگیز خان چک بیلی خان ڈسپنسری میں 1980ء سے 1990ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے اب اپنا مطب چلا رہے ہیں۔پنڈوڑی سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال ملک پاک فوج میں طبی خدمات سرانجام دینے کے بعد کافی عرصہ چک بیلی خان میں مریضوں کا علاج کرتے رہے

۔ان کے علاوہ چک بیلی خان کے ڈاکٹر ذوالفقار علی صابر اور ڈاکٹر مہوش نوید بھی حکومتِ پنجاب کی ملازمت کررہے ہیں۔چک بیلی خان میں دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں میں میں ڈاکٹر منیر تابش نے 2005ء سے یہاں مطب قائم کررکھا ہے جہاں دور دور سے مریض آکر شفایاب ہورہے ہیں ڈاکٹر منیر تابش ایک معروف شاعر بھی ہیں جن کی شاعری کا مجموعہ بھی منظرِ عام پر آچکا ہے ان کے علاوہ چک بیلی خان میں کئی حکیم بھی وقتًا فوقتًا آکر اور دواخانے قائم کرکے دیسی طریقہ سے امراض کا علاج کرتے رہے ہیں قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں کئی سِکھ خاندانی حکیم یہاں آتے رہے اور اپنی حکمت کے جوہر دکھاتے رہے ہیں

ان کے علاوہ حکیم مبین احمد نے بانیاں سے آکر یہاں دواخانہ قائم کیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے حکیم برکت علی نے قائم رکھا۔ان کے علاوہ بھی بے شمار ڈاکٹر چک بیلی خان میں امراض کا علاج کرتے رہے ان میں ڈاکٹر نیّر محمود اور ڈاکٹر عرفان احمد ملک نمایاں ہیں۔چک بیلی خان کی ڈسپنسری کو ختم ہوئے تین دہائیاں گزر چکیں ہیں اس جگہ ایک شفاخانہء حیوانات کام کررہا ہے

عطیہ کردہ زمین پر ضلع کونسل نے دکانیں بنا رکھی ہیں جن کا کرایہ ضلع کونسل کے پاس جاتا ہے اس عطیہ شدہ زمین کا کافی حصہ بیکار پڑا ہے جس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ڈسپنسری کیلئے عطیہ شدہ زمین اب محکمہء صحت کی بجائے ضلع کونسل کے پاس کیوں ہے کیا ان دکانوں کا کرایہ ضلع کونسل میں ہی جمع ہوتا ہے اس کے بارے میں حقائق منظرِ عام پر آنا ضروری ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں