جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے اس حدیث مبارکہ نے تو ماں کی عظمت و رفعت کو اوج ثریا پر پہنچا دیا ہے اس حدیث مبارکہ کی تفسیر و مطالب کو دو مختلف زاویوں سے بیان کیا جاتا ہے پہلا جو عام معروف ہے جس کے مطابق اس میں ماں کی عظمت و بزرگی مقام ومرتبہ کا ذکر کیا گیا ہے
اس تفسیر کے ذریعے بچوں کو والدین اور خاص طور پر والدہ کی خدمت کی طرف راغب کیا گیا ہے کہ اگر تم جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے والدین خاص کر اپنی والدہ کی خدمت کرو اس کی نافرمانی نہ کرو جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جائے تو جیسے اس نے بچپن میں تمہاری خدمت کی تھی تمہیں پالا پوسا تھا تمھاری ضروریات زندگی کو پورا کیا تھا بلکل اسی طرح نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اس کی خدمت کرو بچپن میں تم محتاج تھے تو اس نے تمھاری نگھداشت کی بلکل اسی طرح اب وہ بڑھاپے کمزوری ضعف کی بنا پر تمہاری محتاج ہے’
اب تم بلا کسی غرض و غایت کے ان کی خدمت بجا لاؤ جب تم ان کی خدمت بجا لاؤ گے تم دیکھو گے کہ جنت تمہارے کتنے قریب ہے یعنی جنت والدین کی خدمت کے اندر ہی چھپی ہوئی ہے اس ایک مطلب سے تو والدین کی عظمت والدہ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے جبکہ اس کا جو دوسرا مطلب و معنی لیا جاتا ہے اس کے ذریعے یہ حدیث مبارکہ والدہ پر ایک ذمہ داری عائد کر رہی ہے والدہ کو یہ درس دیا جا رھا ہے کہ آیا تو چاہتی ہے کہ تمھارے بچے جنت میں جائیں تو اس جنت کی چابی تمھارے ھاتھ میں ہے وہ کیسے ایسے کہ تمھاری گود ان کی پہلی درسگاہ ہے’
تو بچے کی پہلی استاد ہے تو بچے کی پہلی معلم ہے بچہ وہی کچھ کرے گا جو تجھے کرتا ہوا دیکھے گا جو کچھ تو ان ابتدائی سالوں میں اسے سیکھائے گی اس کی چھاپ ساری زندگی مٹ نہیں سکے گی ابتدائی زمانے کی تعلیم و تربیت کے نقؤش ان مٹ ھوتے ہیں اٹھنے بیٹھنے کے آداب بول چال کا انداز طرز تخاطب کھانے پینے کا سلیقہ پہناوا سب کچھ بچہ ماں سے سیکھتا ہے حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ھر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ھوتا ہے اس کے والدین ہی اسے عیسائی یہودی یا مشرک بناتے ہیں اب پتہ چلا کہ ماں کی تربیت ہی اصل ہے یعنی جیسے ایک مالی بیج سے نکلنے والی نازک ترین کونپلوں کی حفاظت کر کے ایک تناور درخت میں بدل دیتا ہے ‘
اس طرح ایک ماں بھی ایک کورے کاغذ پر جو کچھ لکھ دیتی ہے ماں کی وہ تحریر اس بچے کو صلاح الدین ایوبی محمد بن قاسم شیخ عبد القادر جیلانی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بنا دیتی ہے یا بد نامے زمانہ ڈاکو چور بد اخلاق بدکردار اگر تو نے اولاد کی صحیح صحیح تربیت کر دی تو ان کو جنت کا حصول انتہائی آسان ہوگا وہ جنت ان سے اتنی دور ھو گی جنتےتمہارے قدم ان سے دور ہیں یعنی اتنی قریب ان کو جنت ملے گی اب یہ تمھاری مرضی و نیت اور محنت پر منحصر ہے کہ تم ان کے اخلاق و کردار عادات و اطوار تعلیم و تربیت کے لیے کتنی محنت کرتی ھو تم ان کے دل کو دنیا کے پیسہ جاہ وجلال منصب کی آماجگاہ بناتی ہو’
یا ان کے دل کو محبت الٰہی و عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آراستہ کرتی ھو تم ان کے دل میں آخرت کا خوف پیدا کر کے دنیا سے بے رغبت کر دیتی ھو یا دنیا کی حرص وہوس کا گھر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان اور سچا مسلمان ایک ماں ہی بنا سکتی ہے اسی لیے نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا قوم معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور افراد کی بنیادی اکائی ماں اور باپ ہیں اب جب معاشرے کی بنیادی اکائی نیک اور صالح اچھی تعلیم و تربیت سے لیس ھوگی تو اس کے زیر کفالت زیر تربیت افراد معاشرہ بھی اچھے ھوں گے
ان میں وہ ساری خوبیاں موجود ھوں گی جو ایک ماں میں پائی جاتی تھیں اس سے ایک اچھا معاشرہ بنے گا اج ہمارے معاشرے کےبگاڑ کی جو صورتحال ہے اس کی نوے فیصد سے زائد ذمہ داری ایک ماں پر آتی ہے کیوں کہ ہم نے معاشرے کو الا ماشاءاللہ پڑھی لکھی ماں تو دینے کی کوشش کر رہے ہیں سکول کالج یونیورسٹییز بھرے پڑے ہیں وہ دنیا جہاں کے علوم سیکھ رہی ہے دنیا جہاں کے کام کرنے کی اھل بھی ہے اور کر بھی رہی ہے چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر جہاز تک اڑا رہی ہے یوں بھی کہ سکتے ہیں
کہ اس وقت وہ مردوں کے شانوں کے ساتھ شانے ملا کر کام کر رہی ہے ھماری تعلیم نے اسے سب کچھ سیکھا دیا ہے لیکن اچھے اخلاق نہ دے سکی اچھا کردار نہ دے سکی ھم کتاب کے قاری تو بنا رہے ہیں لیکن کردار کے غازی بنانے پر ھماری توجہ ہی نہیں ہے ھماری اس کھوکھلی تعلیم نے عورت سے ماں کا درجہ چھین لیا ہے ھمارا معاشرہ اچھی ماہیں پیدا کرنے میں بانچھ پن کا شکار ھو چکا ہے اگر ھم اپنی اولادوں کو اور اس معاشرے کو مزید بگاڑ سے بچانا چاہتے ہیں تو ھماری بیٹیوں کو اچھی مائیں بننا پڑے گا