سندھ اور پنجاب کی سرحد کے درمیان واقع کچے کا علاقہ جہاں ڈاکو راج گذشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ جس انداز سے سندھ اور پنجاب کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے مقامی سے صوبائی اور اب ملکی سطح پر لا رہے ہیں
بہت جلد یہ ریاست کے لئے ایک نیا سر درد بن کر ابھریں گے یہ ڈاکومبینہ طور پر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جن میں مارٹر، راکٹ سے چلنے والے دستی بم اور طیارہ شکنی بندو قیں شامل ہیں.
ڈاکوؤں کے زیر اثر کچے کے علاقے تمام تر حشر سامانیاں سمیٹے ہوئے ہیں یہاں ڈاکو ہیں اسلحہ ہے اغواکار ہیں اور مغوی ہیں پولیس کے کمانڈو ہیں پولیس افسران ہیں لیکن اگر کچھ نہیں ہے
تو وہ ایکشن ہے خلوص نیت سے مسئلے کے حل کے لئے کیا جانے والا ایکشن سندھ کو پنجاب اوربلوچستان سے جڑے سرحدی راستوں، قومی اور شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو یہ کچے کے ڈاکو اپنا د ائرہ کار سمجھتے ہیں
ٹیکنا لوجی اور نئی سڑکوں کا جب تک جال نہ تھا تب تک کچے کے ڈاکو راستوں پر گھات لگا کر رات کے اندھیرے میں مسافروں کولوٹا کرتے تھے
پھر نیٹ ورک بڑھا تو انہوں نے سائیڈ پرائس کے طور پر ملک بھر کے چھو ٹے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے اور پناہ کے عوض پیسے بٹورنے کا بھی کام کیا کچے کے ڈاکو سرعام شہر یوں سیکورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کر کے جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے
اور وصول کرتے ہیں تاوان نے ملنے کی صورت میں اغوا ء کنندہ کو بے دردی سے قتل کرکے لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے جبکہ بنجاب سندھ کی پولیس ابھی تک ان پر قابو پانے میں ناکام ہے
بھارتی سرحدی علاقہ سے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ راکٹ لانچرز پولیس سے چھنی گئی بکتر بند گاڑیاں وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں
وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مارکر کے باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ جب پورے ملک میں سیکورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے
کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں کچے کے ڈاکووں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے اور نہ ہی ان دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے .
کچھ ا ہلکاران کے سہو لتکار بھی ہو سکتے ہیں خدشہ ہی نظر آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کا العدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کے لئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں
اور ایسا ممکن ہے کہ وہ خوف اور دہشت کی بنیاد پرایسی مسلح تحریک بھی شروع کر دیں جس کی پیچھے ہم بھارت کا ہاتھ تلاش کر تے ہیں اورریاست ہاتھ ملتے رہ جاتی ہے
اور ایسا وقت نہ آجائے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے ان کی شرائط پر مذاکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کے نعرے دعوے سننا پڑجائیں
کچے کے ڈاکو سرعام شہریوں پر تشدد کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں ریاست کو للکارتے اور مذاق اڑاتے ہیں لیکن ریاست پھر بھی خاموشی ہے ریاست سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ہو سکتاکچے کے ڈاکو کتنے طاقتور ہیں کہ انہیں کچلا نہیں جا سکتا پولیس آپریشنز کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دئیے جاتے ہیں
کروڑوں کے بجٹ اسلحہ گولہ بارود خصوصی الاؤنسز کے نام پر خرچ کا کردئیے جاتے ہیں
لیکن نیتجہ صفر۔
ہماری تو عقل یہ سوچ سوچ کرہلکان ہوئی جاتی ہے کہ جنہیں ہم کچے کے ڈاکو کہتے ہیں دراصل یہ مستقبل کے دہشت گرد ہیں دوسری طرف تماشادیکھئے کہ افغان و پاکستانی طالبان گٹھ جوڑ دن رات تباہی کر رہا ہے بلوچستان میں کا لعدم بی ایل اے سمیت علیحدگی پسندی کے نام پر دہشت گرد دندناتے پھررہے ہیں
اور کچے ڈاکو اپنی ریاست مضبوط کرنے میں مصروف میں ایسے ہیں ہماری حکمت عملی کیا ہے؟
خیال تو یہ آتا ہے کہ اگر یہ سب دہشت گرد عناصر اور کچے کے ڈاکو مستقبل میں ایک دوسرے کے سہولت کار بن گئے یا ان سب نے ریاست کے خلاف ایک کر کے چاروں طرف سے بیک وقتمحاذ کھول دیا تو انجام کیاہوگا؟ اگر ریاست چاہے تو آج کچے کے ڈاکووں کو نیست و نابود کر سکتی ہے
ریاست کے پاس اختیا ربھی ہے طاقت اور ہتھیار بھی ایسا ہر گز اس طرح ہو سکتاکہ کچے کے ڈاکو معصوم شہریوں سیکورٹی وریسکیو و اہلکاروں کو یر غمال بنا کر تاوان وصول کریں اور ریاست ان کا تماشا دیکھتی ہے ہر گزرتے دن کچے کے ارد گرد علاقوں میں خوف کی فضا پھیل رہی ہے
قومی شاہراہوں موٹرویز پر انتظامیہ کی طرف سے واضح ا علانات لکھے نظر آتے ہیں کہ ان شاہراہوں پر دن کے اوقات میں قا فلوں کی صورت اور شام کے بعد سفر سے گریز کریں۔
واضح شواہد موجود ہیں کہ کچے کے ڈاکو جب چاہیں جس سیچاہیں مسافر گاڑیاں روک کر بھتہ وصول کرتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسافروں کی طرف سے مزاحمت پر انہیں فائرنگ کر کے قتل تک کر دیا جاتا ہے اور قانون یہاں بالکل بے بس نظرآتا ہے سوچنیکی بات یہ ہے
کہ ڈا کو کچے سے نکل کر پکے یعنی شہر کے علاقے تک پہنچ چکیہیں یہ ایک انتباہ ہے کہ مستقبل میں ریاست کے لئے وہ ایک بڑا چیلنچ بننے والے ہیں۔
کچے کے علاقے میں ہنی ٹریپ کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنا اور رقم لوٹ کر کاروبار بھی یہاں شروع ہوا جبکہ سستی گاڑیاں بیچنے کے نام پر دھوکہ دہی کی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوؤں کا نام لیا جا رہا ہے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پنجاب اور سندھ حکومت ان ڈا کوؤں کا مکمل خاتمہ کیوں نہیں کر سکی؟
گھناؤئی وارداتیں کرنے والے قابو میں کیوں نہیں آرہے؟ کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ر یونیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر الاٹ نہیں کی گئی ہے جس میں سے محکمے کومطابق وسیع رقبہ پر قبضہ ہے
کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکٹر اراضی ہے ان میں سے کئی بڑے زمیند ار سیاست میں بھی متحرک ہیں یہاں دس لاکھ سے زائد آبادی مقیم ہے جو سویشی پانی اور زراعت سے وابستہ ہیں جنگلات جھاڑیوں اور کچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈا کوؤں کے لئے چھپ کر اپنی کار روائیاں کرنا اور پناہ لینا آسان ہو جاتا ہے
یہاں مختلف قوموں اور برادریوں کی آپس میں لڑائیاں اور رنجشیں تادیر چلتی رہتی ہیں ریاست کو ہوش میں آنا ہو گا ابھی تو سند ھ پولیس پر کچے کے ڈاکوؤں سے ملی بھگت کا الزام لگا کر ہاتھ کھڑے کردئیے جاتے ہیں مقامی سرداروں پر ڈاکوؤں کی سر پرستی کی بات ادھر اْدھر کو سن لی جاتی ہے۔
لیکن سندھ ہندو اقلیت کو اپنا بنیادی ہدف بنا نے کی یہی روش جاری رہی تو یہ محض کچے کے ڈاکو نہیں رہیں گے بلکہ انہیں شدت پسندی کا ہمیشہ سے آزمودہ پلیٹ فارم سے مل جائے گا۔