انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو کھربوں روپے کی کیپیسٹی پیمنٹس ادا کی کی جاچکی ہے اور ان آئی پی پیزنے ہر پاکستانی کی زندگی کو متاثر کر کرنا شروع کر دیا ہے مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شہر اور ہر گلی محلے میں بجلی کے بلوں کو لے کر دہائی دہائی ہورہی ہے اب حکومت کویہ فیصلہ کر نا ہو گا کہ پچیس کروڑ پاکستانیوں کے بقاء زیادہ اہم ہے یا چالیس خاندانوں کے لئے یقینی منافع ضروری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی اور آئی پی پیز کو ادا کی گئی۔ کیپسٹی پیمنٹس کا ریکارڈ بھی پبلک کیا جائے اور آئی پی پیز کی پیداواری لاگت کا ڈیٹا عوام کے سامنے رکھا جائے۔ آئی پی پیز کو فیول کی مد میں ادا کی گئی رقوم کے بارے میں بتایا جائے اور آئی پی پیز کی جانب سے صارفین سے لی گئی وصولیوں کا ڈیٹا بھی عوام کے سامنے رکھا جائے۔ یہ انکشاف پاکستانی قوم پر ایٹم بم بن کر گرا کہ باون فیصد پاور یونٹس حکومتی ملکیت میں ہیں
جو پچاس فی صد سے کم پیداواری صلاحیت پر چلائے جارہے ہیں لیکن صارفین سے 100 فی صدکیپسٹی چارجز وصول کئے جار ہے میں اور یہ کہ اڑتالیس فی صد آئی پی پیز چالیس خاندانوں کی ملکیت ہیں اس مظلوم قوم کے ساتھ اس سے بڑی زیاد تی اور کیا ہو سکتی ہے؟
گز شتہ 77برسوں سے اس ملک میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکمرانوں سے یہ سوال ہی پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے ان عوام کش اور عوام دشمن معاہدوں کو ختم کرنے کے لئے اب تک کیوں کوئی ٹھوس کو شش نہیں کی؟
ہمارے ملک میں یہ بات بہت دفعہ دہرائی گئی کہ پی آئی اے اور کراچی کی پاکستان سٹیل ملز جیسے ادارے قومی خزانے پربوجھ ہیں۔
اس لئے ان اداروں کو نجی شعبے کیلئے تو فر وخت کر دینا چا ہئے تا کہ وہ ان کے معاملات اچھے طر یقے سے چلا سکیں اور اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جاناچاہئے کہ کیاپی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز آئی پی پیز سے بھی زیادہ بڑے بوجھ ہیں؟ اس بات پر سخت حیرت ہوتی ہے کہ ہر سال اربوں روپے عوام سے اکٹھے کر کے اور اہم ضروریات کو الگ طرف رکھ کر قومی خزانے میں سے ان بجلی پیدا کر نے والے نجی اداروں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں اور کسی کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی پی پیزہیں کیا؟
پاکستان میں انہوں نے کب کام شروع کیا اور ملک و قوم کی مالی حالت دیکھتے ہو ئے بھی ان کے ساتھ عوام دشمن معاہدے کس نے کئے جن کے نیچے ہیں لوڈ شیڈنگ سے تو صارفین کو نجات مل سکی لیکن ان کی جیبوں سے کھربوں کے حساب سے رقم تیزی سے نکلنا شروع ہو گئی؟ 1994 وہ سال تھا جب حکومت پاکستان نے تیل کو ئلے اور گیس پر مبنی آئی پی پیز کی ترقی کے لئے سرمایہ کار دوست پالیسی کا اعلان کیا اس اعلان کے بعد سولہ آئی پی پیزیونٹس قائم کئے گئے
اگلے سال یعنی 1995 میں ہائیڈ روپاور پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک کا پہلا ہائیڈرو آئی پی پیز تیار ہوا۔ آپ خود ہی اندازہ لگالیں 1994-95 میں یہاں پاکستان میں کس کی حکومت تھی۔ 2002 میں مسلم لیگ ق کی حکومت نے ایک نئی پالیسی اپنائی جس کے تحت مزید بارہ آئی پی پیز نے کام شروع کیا آئی پی پیز کی ترقی کے لئے پرائیوٹ پاور انفرا سٹراکچر بورڈ حکومت پاکستان کے تمام محکموں اور وزارتوں کی جانب سے ون ونڈ و سہولت کار کے طور پر کام کرتا ہے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ ایسا کوئی بورڈپاکستانی عوام کو تو اب تک نہیں مل سکا۔
2015 میں پاکستان نے ایک نئی پاور پالیسی اپنائی جس کے ذریعے مزید تیرہ آئی پی پیزقائم کئے گئے جن میں زیادہ تر چینی کمپنیاں شامل تھیں نجی شعبے میں ٹرانسمیشن پالیسی کا بھی اعلان کیا گیا۔2018 تک پاکستان میں چالیس سے زائد آئی پی پیز کام کرر ہے تھے اور اس وقت پاکستان میں ایک سو چھ آئی پی پیز کام کررہے ہیں ان آئی پی پیز کے ساتھ غالباً ٹیک اینڈ پے معاہدے کئے گئے تھے
جس میں خریدار پروڈ کٹ کو لینے کا پابند ہوتا ہے اگر وہ پر وڈکٹ نہیں خرید تا تو پھر بھی اسے پروڈکٹ کی پیداواری صلاحیت کے مطابق رقم ادا کرنا پڑتی ہے اور اسی کو کیپسٹی پے منٹس کہا جا تا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے گذشتہ برس ایک ہزار ایک سو اٹھانوے ارب روپے کی بجلی خریدی جبکہ کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں تین ہزار ایک سو ستائیس ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ اب ذر ا مزید اندازہ لگائیے کہ پاور سیکٹر میں درآمدی فیول سے چلنے والے آئی پی پیز کے ساتھ ظالمانہ معاہدے، قومی معیشت اور عوام پر بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔ آئی پی پیز کو گزشتہ دس سالوں میں آٹھ ہزار تین سو چوالیس ارب ڈالر کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
جو موجودہ شرح مبادلہ کے حساب سے تیس ارب ڈالر کر مختلف ادوار کے زر مبادلہ کے حساب سے اوسطاًچور اسی ارب تر اسی کروڑ ڈالر سے زائد بنتے ہیں۔ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے اعداد و شمار 2013 سے 2024 تک کے ہیں 2013 سے 2004 کے دوران دس برس میں آئی پی پیز کو آٹھ ہزار تین سو چوالیس ارب روپے کی کیپسٹی چارجز ادا کئے گئے۔دس برسوں میں آئی پی پیز کو توانائی کی قیمت نو ہزار تین سو بیالیس ارب روپے ادا کی گئی۔ 2013 میں ڈالر ریٹ پچانوے روپے کے حساب سے ایک ارب چورانوے کروڑ سے زائد کیپسٹی چار جز دئیے گئے۔ 2014
میں اٹھانوے روپے کی شرح تبادلہ کے مطابق یہ رقم دو ارب سولہ کروڑ ڈالر بنتی ہے۔2015 میں سوروپے ڈالر کے حساب سے دو ارب چھپا لیں کروڑ ڈالر جبکہ 2016 کی شرح تبادلہ کے حساب سے دوارب اکسٹھ کروڑڈالر ادا کئے گئے۔2018 میں ایک سو پچیس روپے کی شرح تبادلے حساب سے آئی پی پیز نے تین ارب چوہترکروڑ ڈالر سے زائد وصول کئے 2019 میں ڈالر ایک سو باون روپے کا ہوا تو چارارب بائیس کروڑ ڈالرکی ادائیگی کرنا پڑی ڈالر کی قیمت کے ساتھ ساتھ کیپسٹی چارجزبھی بڑھ کر 2024 کے لیے سات ارب سترہ کروڑ ڈالرتک پہنچ چکے ہیں۔
ظلم کی یہ داستان نہیں ختم نہیں ہوئی ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ کئی پاور یونٹس جب لگا ئے جا رہے تھے تواگر ان کی پیداواری صلا حیت ستر میگا واٹ تھی تو بد عنوانی کر کے اس کو ایک سو میگا واٹ ظاہر کیا گیا اور اب تک ایک سو میگا واٹ کے حساب سے رقم وصول کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں بجلی کی قیمت زیادہ سے زیادہ بیس روپے فی یونٹ ہونی چاہئے تھی وہ مظلوم شہری ساٹھ روپے سے 80 روپے تک میں خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ متعدد حکومتی ٹیکسز اور چارجز اس پرلگائے گئے ہیں یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ وہ پرانے آئی پی پیز جن کے ساتھ معاہدے ختم ہو چکے تھے ان میں سے کئی ایک کے کنٹریکٹ دوبارہ بحال کئے گئے ہیں