419

مہوش اشرف‘شاعرہ اور افسانہ نگار

مہوش اشرف کا تعلق کراچی سے ہے۔غزل اور نظم کے علاوہ افسانہ بھی لکھتی ہیں۔وہ اپنے اسلوب کی پختگی’فکری تنوع اور لہجے کی تازگی کے باعث شعرو ادب میں منفرد اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

ان کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سوچنے کا انداز دیگر شاعرات سے مختلف اور جدا بھی ہے۔نظم ہو یا نثر ان کا رویہ لفظوں میں جان پیدا کرتا ہے اور ایک مکمل منظر میں اپنے اسرار منکشف کر دیتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ کراچی کا ضلع ملیر سعودآباد میری جنم بھومی ہے

الحمدللہ ہم چار بہن بھائی ہیں مجھ سے بڑی ایک بہن اور ایک بھائی ہیں میرا نمبر تیسرا ہے مجھ سے چھوٹا ایک بھائی ہے الحمدللہ سب اپنی اپنی زندگیوں میں کامیاب اور خوش و خرم ہیں۔

سب بال بچوں والے ہیں ماشائاللہ۔ ابتدائی تعلیم لٹل فوکس پیراڈائز سکینڈری اسکول سے حاصل کی کالج کے بعد انگریزی ادب میں وفاقی اردو یونی ورسٹی سے بی اے آنرز اور ماسٹرز کیا انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کراچی یونیورسٹی سے مکمل کیا۔شادی کے بعد گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف ہو گئی

الحمدللہ تین بچے ہیں۔ شعبہ تدریس سے وابستگی کو کم و بیش 15 سال ہونے کو آئے اس دوران کراچی کے کئی نامور اسکولوں میں پڑھایا سیکھا اور سکھایا آج کل کراچی پبلک اسکول میں خدمات سر انجام دے رہی ہوں۔ شو مئی قسمت میری ابتدائی شاعری محفوظ نہیں رہی اور چونکہ اسکول کے زمانے میں جو کچھ لکھا وہ ضائع ہوگیا تو آن ریکارڈ اب تو میرا پہلا شعر ہے وہ یہ ہے

: سدا ہم کو محبت میں سہارے مار دیتے ہیں سمندر کچھ نہیں کہتا کنارے مار دیتے ہیں لکھنے کا باقاعدہ آغاز غزل سے کیا شاعری پڑھنے اور لکھنے کا ایک سلسلہ جو دوران تعلیم شروع ہوا تھا وہ جب دوبارہ جڑا تو اچھا آغاز ملا میری غزل کا پہلا شعر ہی حوصلہ افزائی کا باعث بنا اور ادبی حلقوں میں میری پہچان بھی۔

بعد ازں نثر نگاری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور الحمدللہ دونوں میں کامیابی ملی اور مزید لکھنے کی تحریک ملی۔ بچوں کے لیے جب لکھنا شروع کیا تو الحمدللہ! میری دونوں ابتدائی کہانیاں ہی قابلِ اشاعت قرار پائیں۔ اردو میں لکھی گئی کہانی بعنوان معصوم سوال بچوں کی دنیا میں شائع ہوئی جب کہ انگریزی کہانی The Cunning Crocodile ہلال فار کڈز میں شائع ہوئی۔

میری ایک اور کہانی The Nighttime Intruder Fearجو ہلال فار کڈز نے شائع کی عالمی سطع پر انگریزی پڑھنے کے لیے مواد کے طور پر British Council کے پلیٹ فارم سے شئیر کی گئی جو میری لیے باعث لکھاری اور معلمہ فخر کا باعث ہے۔ تعلیم اور سیاست پر ابتدائی ؎کالمز لکھے بعد ازں مختلف شعرائے کرام کے کلام پر تجزیے اور تبصرے بھی لکھے مزید سفر جاری و ساری ہے۔ کہتے ہیں کہ لکھاری معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔

میں حقیقت پسند عورت ہوں میری کہانیاں، افسانے بھی معاشرے میں بکھرے رنگوں پر ہی گفتگو کرتے ہیں میرے افسانوں کے کردار بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ان میں حقیقی معنوں میں زندگی دوڑتی نظر آتی ہے۔ ویسے تو سبھی افسانے اچھے ہیں بڑی مشکل سے وقت نکل کر لکھ پاتی ہوں اس لیے بھی بہت پیارے ہیں کیوں کہ نہ لکھوں تو طبعیت بے چین رہتی ہے اور دل اداس ہو جاتا ہے

۔ صد شکر ہے اب تک جو لکھا قابل اشاعت قرار پایا بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی معصوم سوال مجھے پرسنلی بہت پسند ہے ایسا کبھی کبھی لکھا جاتا ہیاللہ تعالی جو کام لینا چاہتے ہیں وہ اپنے بندوں سے لے لیتے ہیں ورنہ انسان کے بس کی بات کہاں۔ کہانی معصوم سوال سبق کے لحاظ سے بہت بڑی کہانی ہے اور میں تو کہوں گی ہر عمر کے فرد کو پڑھنی چاہیے۔ پاکستان میں پڑھنے کا رجحان کم ہے تعلیم کا تناسب الگ بات ہے

میں بات کر رہی ہوں کتب بینی کی۔ ہمارے یہاں کورس کی کتب بھی اکثر صرف اس لیے پڑھی جاتی ہیں کہ امتحان دینا ہے۔ مشاہدہ صفر اور نتیجہ ہماری قوم شعوری طور مفلوج قوم بنتی جارہی ہے آسانی ڈھونڈتی سست الوجود قوم سب کچھ شارٹ کٹ سے چاہتی ہے لہذا نئے لکھنے والے جلد از جلد فیم چاہتے ہیں اور لکھنے سے پہلے مطالعے اور مشاہدے کی اہمیت کو نظر انداز کر رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ نئے لکھنے والوں میں بہت کم لوگ دیر تک منظر عام پر رہتے ہیں کیونکہ کام زندہ رہے گا تو نام زندہ رہیگا۔ بے

تکی بے سروپا تحایر چھاپتے مدیر بھی اسلیے اکثر تنقید کی ذد میں رہتے ہیں ہم وہ ہجوم بنتے جارہے ہیں جس کا شوق فقط کھانا اور سونا ہے مقابلہ پر تو بات جب آئے گی جب ہم میدان عمل میں کچھ کرنے کی ٹھانیں گے۔ ایک اور نکتہ ماہانہ کجا سالانہ بجٹ میں عام قاری روز بہ روزبڑھتی مہنگائی کی وجہ سے کتاب خریدنے کی سکت کھو بیٹھا ہے جو کتب بینی میں زوال کا سبب بن رہا ہے۔ ہمارے اسلاف کی تحاریر آج بھی ہماری لائبریریوں کا حصہ ہے

جب کہ نئے لکھنے والوں میں کم ہی نام ایسے ہیں جن کی تحریر دل موہ لے اور آپ کتاب خریدنے پر آمادہ ہو جائیں۔میری سب سے پہلی ترجیح میری فیملی ہے اور لکھنا فقط شوق ہے لہذا سب سے پہلے ان کی ساری ضروریات اور ان کی ساری خواہشات اور اس کے بعد لکھنے کی باری اتی ہے لکھنے کو میں نے کبھی بھی اس طرح ترجیح نہیں دی کہ میں ان کو نظر انداز کروں اسی لیے میں کم کم لکھتی ہوں اور جو بھی لکھتی ہوں الحمدللہ قارئین کی طرف سے مجھے اس میں ایک اچھا فیڈ بیک مل رہا ہے تو خوشی ہوتی ہے

۔ کراچی پاکستان کا میگا سٹی ہے الحمدللہ یہاں پر تمام تر سہولیات موجود ہیں چاہے وہ تعلیمی ہو چاہے وہ طبی ہو معاشی طور پر کراچی پاکستان کا حب ہے ہر طرح سے یہاں پر سہولیات موجود ہیں اور ماشائاللہ کراچی والے ج میرا نہیں خیال کے تعلیم میں کہیں بھی پیچھے ہیں یہاں پر حکومتی سطح پر بھی جو ہے وہ یونیورسٹیز موجود ہیں اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کا بھی ایک رجحان اب پنپ رہا ہے معاشرے میں تو وہ بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں

۔ الحمدللہ! میں انگلش اور اردو دونوں میں لکھ رہی ہوں اور دونوں میں میرا کام شائع ہو رہا ہے اردو میں زیادہ شائع ہو رہا ہے کیونکہ اردو کے قاری زیادہ موجود ہیں لہذا اردو کا کام زیادہ منظر عام پر آ رہا ہے اور انگلش کے لیے ہلال فار کڈز کی بہت زیادہ شکر گزار ہوں وہ میرا انگلش کا جتنی بھی رائٹنگز ہیں بچوں کی اسٹوریز اور بچوں کی پوئمز وغیرہ وہ پبلش کر رہے ہیں اور تقریبا ہر ماہ ہی میرا کام وہاں سے شائع ہو رہا ہوتا ہے

۔ اب تک جتنا بھی لکھا سبھی پسند ہے اور قابل اشاعت ٹھہرا تو الحمدللہ یہ میرے لیے بہت بڑی بات ہے کیونکہ میں تو ایک ادنی سی بس قاری تھی پتہ نہیں چلا کہ کب میں نے قلم اٹھایا اور میں اس قابل ہو گئی کہ میں لکھنے لگی تو یہ تو اب میرا قاری ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ میں کیسا لکھ رہی ہوں۔ شاخچوں سے بور اترا دیکھیے پھر خزاں یابی کا رستہ دیکھیے داد دیجے جراْتوں کی بعد میں پہلے مجھ کو آبلہ پا دیکھیے ہے

ریاضی کے اصولوں سے ورا گفتگو ان کی وہ لہجہ دیکھیے دیکھیے اس نیل چہرے کی طرف مندمل گھاؤ نہ بے جا دیکھیے ربط ٹوٹا گفتگو میں بار ہا اضطرابی حال میرا دیکھیے چھوڑیے باتیں سبھی کردار کی آپ بس حاکم کا کہنا دیکھیے شام ڈھلتی آپ نے دیکھی تو ہے

خاک اڑتی جسم جلتا دیکھیے زندگی بندگی اور تم پیار کی چاشنی اور تم گفتگو پیار و تکرار کی آرزو بس یہ ہی اور تم چاند جگنو ستارے سبھی روشنی چاندی اور تم سلسلہ یہ وفا کا صنم بے خودی عاشقی اور تم مہندیاں چوڑیاں ہاتھ میں سادگی دل کشی اور تم دلربا دلنشیں ساتھ ہے اُس پہ ساون جھڑی اور تم معتبر ہر حوالہ ترا عاشقی شاعری اور تم مہوش اشرف‘شاعرہ اور افسانہ نگار

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں