311

شادی میں فضول رسومات

آج ہمارے معاشرے میں آسان نکاح کومشکل ترین رسم ورواج کی بھینٹ چڑھاکرمشکل ترین بنادیاگیاہے۔ جسکی وجہ سے نوجوان نسل نیکی کی بجائے برائی کے راستے پرچل رہی ہے۔ انہیں نکاح مشکل لگتاہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بے حیائی‘زنااوربرائی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔

معاشرے میں برائی کیساتھ ساتھ بدنامی کی زدمیں آجاتی ہے نکاح انتہائی آسان ہے جسے ہم نے خودمشکل بنایاکم خرچ اورہلکے پھلکے نکاح میں بشارت بھی سنائی گئی ہے اگرنکاح کو آسان بناکرعمل کیاجائے تواس میں برکتیں ہی برکتیں ہیں لیکن اگررسم ورواج جہیزاوردکھلاوا کیاجائے توقرض،بوجھ اورپریشانی ہی پریشانی ہے جیساکہ آج ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں پاکستان میں لاکھوں غرباء کی بیٹیاں اپنی شادی کے انتظارمیں ہیں۔ جومعاشرے کے فضول رسم ورواج کی وجہ سے اپناگھربسانے سے قبل ہی بالوں میں چاندنی دیکھ چکی ہیں انکے والدین سے جہیزکابندوبست نہیں ہوسکایاپھروہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے والی کڑی شرائط سے پریشان دکھائی دیتی ہیں

جس کی وجہ سے بیٹیاں بھی پریشان ہیں اور والدین بھی جبکہ اسلام میں جہیز کاتصورنہیں اگر والدین بخوشی اپنی بیٹی کوکچھ دیناچاہیں توشرعی لحاظ سے کچھ ممنوع نہیں۔ آسانی سے جتناممکن ہوکرلیں لیکن اسے بوجھ بناکراپنے اوپرسوارکرلیناشریعت میں اس بات کی ناتوحوصلہ افزائی کی گئی ہے اورناہی اس بات کوپسندکیاگیاہے کہ نکاح کوآسانی سے سرانجام دینے کی بجائے قرض لیکرسودی نظام میں جکڑکرمشکل ترین مرحلہ سے گزراجائے بعض لوگ خاتون جنت سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے جہیزکودلیل بناکرمطالبہ کرتے ہیں یاپھران کے سامان کوجہیزسے جوڑتے ہیں انکی دلیل بھی باطل ہے

اوردعویٰ بھی کیوں کہ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس وقت معاشرے میں جہیزکارواج نہیں تھادوسرا نبی کریم روف الرحیم نے جوکچھ بھی اپنی بیٹی کوعطاء فرمایاوہ
انتہائی مختصرسامان تھااس قدرمشکل نہیں تھاجیساآج مشکل ہے جبکہ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی دوسری بہنیں بھی ہیں ان کا اس طرح تذکرہ نہیں ملتاجہاں تک بات ہے جہیز کی توحدیث میں جولفظ جہیز آیاہے اس کے معنی بھی جہیز کے نہیں ہیں بلکہ ضرورت،انتظام،اوربندوبست کرنے کے ہیں ہمارے معاشرے میں جہیزکوشادی کالازمی حصہ سمجھ لیاگیاہے جب تک شادی کے دیگراخراجات کی طرح جہیزکے سامان کابندوبست ناہوجائے والدین پریشان رہتے ہیں ان کی بیٹیاں آنکھوں میں خواب سجائے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔

جہیزکی طلب میں اورقیمت میں دن بدن اضافہ ہی ہوتاجارہاہے اب جہیز والدین کی طرف سے اپنی بیٹی کیلئے تحفہ نہیں بلکہ معاشرے کی طرف سے جبرتصورکیاجارہاہے اس سے بھی بڑھ کراب جہیزکے سامان کی ظاہری نمائش بھی کی جاتی ہے۔ جودیکھنے والے کوخوش بھی کرسکے اورتعریف کے قابل بناسکے اس سے بڑھ کراب توبہت سارے لڑکے کے گھروالے جہیزکے نام پر کھلم کھلا بھیک مانگنے میں عاربھی محسوس نہیں کرتے اگر غور و فکر کیا جائے تویہ جہیزانفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اورمعاشرتی مسئلہ ہے جس کیلئے ہمیں خودکو بدلناپڑے گاسوچ تبدیل کرنا ہوگی اپنی اولادکوتعلیم دیکرآگاہی حاصل کرناہوگی تاکہ انکی تربیت ہوسکے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ذہنی سوچ کوتبدیل کرناپڑے گامعاشرے میں بااثرافراد،دانش ور،اثرورسوخ رکھنے والے طبقے کواورصاحب اقتدار کوعملی نمونہ پیش کرنیکی اشدضرورت ہے شادی کیلئے بلاتکلف اختصارکے ساتھ جس قدر آسانی سے ممکن ہواتناہی اہتمام کرناچاہیے لیکن ہمارے ہاں یہ رسم ورواج دکھلاوااس قدربڑھ چکاہے

جب تک تمام رشتہ دار دوست احباب تعلق واسطہ قرب و جوارمیں رہنے والوں کومدعوناکرلیں اس وقت تک ہم سکون محسوس نہیں کرتے اس کی وجہ سوائے اس کے اورکچھ نہیں کہ اگرکسی کونابلایاجائے یابھولے سے کوئی رہ جائے تواس بات کوبنیادبناکرہمیشہ کی ناراضگی قائم کرلی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسانہیں ہوناچاہیے اس میں رشتہ داری ختم کرنے کی بجائے ان کی مجبوری کوسمجھاجائے اسی طرح لڑکے والے سمجھتے ہیں جب تک لڑکاتعلیم حاصل ناکرلے اچھی جگہ نوکری کرنا شروع نا کردے یاپھردنیاکی دیگر سہولیات حاصل نا کرلے اس وقت تک اس کیلئے رشتہ نہیں دیکھاجاتا۔اس وقت تک اس کی بھی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی مسائل کااسے سامناکرناپڑتاہے پھرشادی بھی دھوم دھام سے کی جاتی ہے اس میں اللہ کی نافرمانی سرعام کی جاتی ہے

ساری رات میوزک ناچ گاناچلایاجاتاہے بعض اوقات توپوراعلاقہ اس میوزک سے پریشان ہوتاہے آتش بازی کی جاتی ہے ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے مہندی کی ہندوانہ رسم ادا ء کی جاتی ہے دلہن کی غیرمرد ویڈیوز اورتصاویربناتے ہیں سب کام ہم غیر شرعی کرتے ہیں۔ لیکن جب رخصتی کا وقت آتاہے توقرآن سرپراٹھالیاجاتاہے ہم سمجھتے ہیں یہی کافی ہے حالانکہ قرآن سرپراٹھانے کیلئے نہیں نازل ہواقرآن مجید پڑھنے کیلئے سمجھے کیلئے اورعمل کرنے کیلئے نازل ہوایعنی یہ ایسے کام ہیں جن کاشادی تودورکی بات اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتاپھر ولیمہ بھی بڑی دھوم دھام سے کیاجاتاہے جوغریب ہوتے ہیں وہ بھی دیکھا دیکھی میں ہال بک کرتے ہیں

اگرچہ ان کواس کیلئے بھی قرض کے بوجھ تلے گزرناپڑے ایسانہیں ہے ولیمہ کیلئے بھی اختصار کے ساتھ بلا تکلف جس قدرمیسرہواپنے خاص لوگوں کو ھی کھلادیاجائے اس سنت کیلئے بھی ناتوتعدادمقررہے،ناہی کھانے کااعلی معیار مقررہے اورناہی کسی اعلی شان ہال کی بکنگ ضروری ہے اگر اللہ نے ہمت اور توفیق دی ہے استطاعت ہے توزیادہ مہمان بلانے میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن نام کمانا،دوسروں کودکھلانامقصودناہو حاصل کلام یہی ہے کہ دین اسلام نے ہمارے لئے بہت آسانیاں پیدا کیں ہیں۔ ہماری خوشی غمی میں غریب مسلمان کاخیال رکھااس پربوجھ ڈالنے سے بچایالیکن ہم ان سب باتوں کونظراندازکرکہ خود ہی اپنے اوپرایسی باتیں ایسے کام مسلط کرلیتے ہیں

جو ہمیں فائدہ دینے کی بجائے ہمارے لئے نقصان دہ اوربھاری ثابت ہوتے ہیں اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگی کواسلام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزارنے کاعہدکریں اپنی حیثیت کے مطابق اقدامات اٹھائیں تاکہ ان مواقع پر ہمیں پریشانی کاسامناناکرناپڑے اورہمیں قرض سے بھی نجات مل سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں