شبیر احمد بھٹی‘افسانہ و ڈرامہ نگار

معروف افسانہ نگار،کالم نگاراور ڈرامہ نگار شبیر احمد بھٹی ضلع اسلام آباد کے نواحی علاقے بھارکہو میں پیدا ہوئے۔آپ نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی ہے۔آپ کے افسانوں اور کہانیوں کی کتاب تیرھواں ستارا شائع ہو چکی ہے۔ پنڈی پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ادبا اور شعرا کی اگر زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عموماً ادیب اور شاعر اوائل عمری میں ہی لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گریجویشن تک میرے علم میں بھی نہ تھا کہ میں بطور نثر نگار یا شاعر بن کے ابھروں گا۔ میں نے تقریباً 25 سال کی عمر میں پہلا ٹوٹا پھوٹا شعر کہا تھا۔ جو مجھے آج بھی یاد ہے۔
چاہتوں کا فاصلہ عجیب پایا
دور رہ کے تجھے قریب پایا
کون کہتا ہے تنہا ہے شبیر
میرے ساتھ ہے تیرا مہیب سایا
اور اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ کہ میرے اندر کے چھپے ہوئے ادیب نے ظاہر ہونے میں اتنی دیر کیوں لگا دی۔ ہاں ایک بات میں ضرور کہوں گا۔ 1982ء میں ہمارے گھر پہلا بلیک اینڈ وائٹ فائبر باڈی 14 انچ کا ہٹاچی ٹی وی آیا۔ جو اس دور کا جدید ٹی وی تھا۔ میں جب بھی ٹی وی ڈرامہ دیکھتا۔

میرے اندر یہ خواہش جنم لیتی کاش میں بھی ایک ڈرامہ نگار ہوتا اور جب میں اخبار میں چھپا ہوا کوئی کالم پڑھتا۔ تو میں خود سے کہتا کاش میں کوئی کالم نگار ہوتا۔ جب میں کسی
محفل میں جاؤں تو لوگ کہیں کہ یہ شخص کالم نگار/ ڈرامہ نگار ہے۔ 1996ء میں مجھے بھارہ کہو کے ایک مقامی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا انتظام سنبھالنے کا موقع ملا۔ میرے لیے یہ پہلا پلیٹ فارم تھا۔ جہاں مجھے اپنی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ میں بچوں کے سالانہ فنکشنز کے لیے چھوٹے چھوٹے خاکے اور مشاعرے تیار کیا کرتا تھا۔ مگر میرے تخلیقی ارتقاء کا سفر سست روی کا شکار رہا۔

اس کی ایک بنیادی وجہ ہم خیال ادبی حلقہء احباب کی عدم دستیابی بھی تھی۔ 2005ء سے میرا ادبی سلسلہ آگے بڑھنا شروع ہوا۔ یہ میرے ادبی ارتقاء کی پہلی سیڑھی تھی۔ جب میں نے چند صفحوں سے نکل کر افسانہ کہانی اور کالم لکھنا شروع کر دیا۔ پھر اپنے ہی علاقے کے کچھ ادبی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ جن کی مشاورت سے 2013ء میں مقامی سطح پر پہلی ادبی تنظیم ”بزم تخلیق و تحقیق” کی بنیاد رکھی۔ پھر میں نے بلا جھجھک لکھنا شروع کر دیا۔ لفظ کیوں سے مراد حادثہ ہے۔ یہ جملہ زبان زد عام سننے کو ملتا ہے۔

کہ شاعر یا ادیب کسی حادثے کی پیداوار ہے۔ میرے نزدیک یہ خیال 75 فی صد غلط ہے۔ ماحول سے تحریک مل سکتی ہے۔ شاعری یا نثرنگاری ایک فطری صلاحیت ہے۔ اور قلم کار جب تک اپنے خیالات کا اظہار کسی کورے کاغذ پر منتقل نہ کر لے وہ چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ میری اب تک ایک ہی تصنیف ”تیرھواں ستارا” افسانے/ کہانیاں منظر عام پر آئی ہے. اور دوسری تصنیف ”ریوڑ” افسانے/ کہانیاں بعید نہیں کہ انٹرویو چھپنے تک منظر عام پر آ جائے۔ قاری بہتر بتا سکتا ہے کہ ایک ادیب اپنی ذمہ داریوں سے کس قدر مخلص ہے۔ بہرکیف ادیب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے حصے شمیں جلائے جا رہے ہیں۔ میں نہ صرف افسانہ بلکہ بچوں کے لیے کہانیاں، کالم، ڈرامے اور ہلکی پھلکی شاعری بھی کرتا ہوں۔ میرے زیادہ تر کالم مقامی اخبارات نوائے مری، روزنامہ جاگیر میں شائع ہوئے۔

آج کل روزنامہ گرفت اور میڈیا زون میں شائع ہو رہے ہیں۔ مجھے اپنی پہلی تصنیف پر انٹرنیشنل رائٹرز فورم سے اعزازی شیلڈ،تنظیم کار خیر پاکستان سے گولڈ میڈل اور اعزازی سند،الوکیل کتاب ایوارڈ سے گولڈ میڈل اور سند اعزاز،سرتاج سخن وارث شاہ گولڈ میڈل مل چکا ہے۔اس کے علاوہ میری یہ تصنیف ”سردار ادب” ایوارڈ لاہور کے لیے منتخب ہو چکی ہے اور”گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی“ گرینڈ ایوارڈ سند امتیا ز کے لیے منتخب ہو چکی ہے۔آپ کس کے لیے لکھتے ہیں؟ قہقہ لگاتے ہوئے۔ دیکھیے صابری صاحب میں کسی محبوبہ کے لیے تو لکھ نہیں رہا۔ میں نے اب تک 52 افسانے کہانیاں لکھے ہیں۔

ان میں صرف ایک افسانہ ”گڈا” رومانوی افسانہ ہے۔ قلم کی نوک لکھاری کے اختیار میں ہوتی ہے جدھر چاہے موڑ لے۔ میرے نزدیک خاطر خواہ رومانس محض جذبات خراب کرنے کے مترادف ہے۔ میرا فوکس سماجی اور قومی نوعیت کے مسائل ہیں۔اخبارات کو الزام تو نہیں ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیں۔ موجودہ نوجوان نسل کو فروغ ادب کے لیے کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ادبی تقریبات منعقد ہونی چاہیں۔اس وقت جو تنظیمیں قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو شیلڈز اور میڈلز وغیرہ دے رہی ہیں۔ میرا ان کو یہ صائب مشورہ ہے کہ ہر ضلعے کی آرٹس کونسل قلم کار کی تصنیف کی تقریب پذیرائی اپنے ذمے لے لیں۔ اور کسی بھی لکھاری کی تصنیف کی پورے پاکستان کی آرٹس کونسلز میں تقریب پذیرائی کی تقاریب منعقد کرانی چاہیں۔ خطہ پوٹھوہار کے ادیب اپنی ذمہ داریاں بااحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ ہر لکھاری میرا فخر ہے۔

لیکن جب میں کسی انعامی تقریب میں شرکت کے لیے جاتا ہوں۔ وہاں جب خطہء پوٹھوہار کے ادیب کا نام پکارا جاتا ہے۔ تو دل کو ایک تسکین سی ہوتی ہے۔ میرے نزدیک ایک بڑے افسانہ نگار سے بھی پھیکی تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ اور ایک نئے لکھاری سے شاہکار تحریر بھی لکھی جا سکتی ہے۔ میری نظر ذاتی طور پر لکھاری کی تخلیق پر ہوتی ہے۔ میرے نزدیک ہر شاہکار تحریر کو نمائندہ تحریر کا مقام دینا بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں