242

غزل

کس قدر تنگ ہیں حالات نہیں دیکھے گا
جس نے آنا ہو وہ برسات نہیں دیکھے گا
یہ لکیریں تو بچھڑنے کا بہانہ ہے فقط
جو نبھائے گا کبھی ہاتھ نہیں دیکھے گا
میں بھی قائل تھا محبت میں سبھی جائز ہے
وہ بھی کہتا تھا کہ خطرات نہیں دیکھے گا
جس کو محنت کا صلہ آپ کی صورت میں ملے
کب ہوا دن یا ڈھلی رات! نہیں دیکھے گا
جو بھی صحرا میں ترے ساتھ چلا ہو دو پل
جتنے سر سبز ہوں باغات! نہیں دیکھے گا
(محمد فاروق راجہ / تھوہا خالصہ)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں