ہم جس خطے میں رہتے ہیں پاکستان یہ ببانگ دہل اپنی تاریخ کے خونی مناظر چیخ چیخ کر باور کرواتا ہے کہ میری بنیاد اسلام ہے۔ میرا مقصد اسلامی قوانین اور اصولوں کو باآسانی جہاں فروغ دیا جائے اس خطے کی پہچان ہے۔ میرا مقصد میرے وجود کو تسلیم کر کے جہاں ہر فرد آزادی کے ساتھ سکون کی سانسیں لے سکے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ارض پاک ہمارے قائد محترم اور ان کے چند ساتھیوں کی ہی ہمت کا نتیجہ ہے۔ یہ ارض پاک مسلمانان ہند اور اس خوبصورت ملک کی خوبصورت تصویر بنانے والے علامہ محترم اقبال صاحب کی علمی اور فکری صلاحیتوں ان کی سیاسی بصیرت اور ان کی جدوجہد کو عملی جامہ پہنانے کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس وقت کے مسلمانوں کے نصب العین اور انقلاب آفرین فلسفوں میں بڑی جان تھی۔ مگر اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ابتدائی عزم ارادہ اور نیت جس کی بنا پر پاکستان بنا اس کے بعد سے آج تک اس ملک کے نظام میں انقلاب نہیں آیا۔ انسانی رویوں میں انسانی سوچوں میں اور ان کے ارد گرد کے ماحول میں انقلاب نہیں آیا۔ ہماری سیاست اور ایوانوں میں انقلاب نہیں آیا
۔ ہمارے اوپر مسلط رہنماوں کی رہنمائی نہیں کی گئی۔ ہماری مجلس آئین ساز جہاں دن رات قانون سازی کے راگ آلاپے جاتے ہیں جب ایوانوں سے باہر نکلتے ہیں قانون شکنی ثواب جان کر اپنے اپنے نامہ اعمال کو وسعت دے کر بالکل وہی عمل کرتے ہیں جو ہم مسلمان دن میں پانچ بار نمازوں میں کہتے ہیں کہ ” اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ” اور پھر مسجدوں سے باہر نکل کر ہر کسی کو اپنا حاجت روا اور معبود سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم نہ شریعت میں مکمل اترے ہیں نہ ہی دنیاوی معاملات میں۔ہمارے ہر ادارے میں کرپشن اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ اس سے تعلق آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔ اندازہ کریں ہمارے سکول اور اساتذہ تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔
اپنے قیمتی وقت اور اپنے علم کو منتقل کرنے میں کرپشن کرتے ہیں۔ اور روائتی تعلیم میں اس قدر پیوست ہوچکے ہیں کہ رہنمائی تک خود سے نہیں کر سکتے۔ بچوں کے حوالے سے اساتذہ اور والدین بہت کمزور سوچ کے مالک ہیں۔ بعض والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں سے دو باتیں پیار محبت کی کر سکیں، وقت نکال کر اپنی طرف سے کچھ نصیحت ہی کر سکیں اور نہ ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ سکول جاکر اپنے بچوں کے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ استاد کی عزت ضرور کریں مگر ان پر اعتماد آپ کسی صورت بھی نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی ڈور ایک اجنبی استاد کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور پورے سال صرف رزلٹ (نتیجہ) کے دن کاہلی سے حاظری لگواتے ہیں
تو وہاں کے قابل اساتذہ بھی نااہل ہوجاتے ہیں آپ کے اس رویے کو دیکھ کر۔ پھر وہ بھی بچوں کے والدین کی طرح سست ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ پر والدین کا یہ اندھا اعتماد ان کے اپنے بچوں کیلئے اچھا نہیں ہوتا۔ آج کے بچوں کے مستقبل سے اساتذہ اور والدین دونوں مل کے کھیلتے ہیں۔ آپ کسی ایک کو دوشی نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہاں مافیا اور اشرافیہ کی حکمرانی ہے۔ یہاں جس کے پاس پیسہ ہے طاقت اسی کی ہے حیثیت اسی کی ہے قانون اسی کی زبان بولتا ہے۔ یہاں قانون کی ہوس صرف پیسہ ہے طاقت ہے۔ یہاں آپ کھل کر چند بد وضع کردار اور اداروں کے متعلق بات نہیں کر سکتے ان کی پالیسی کے متعلق سوال نہیں اٹھا سکتے ان کی کرپشن کو کرپشن کہنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ان کی کرپشن کو آپ خدا کی غیبی مدد کہہ کر ان کو پر مسرت ضرور کر سکتے ہیں۔
جہاں جس جگہ بات تنقید یا کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے آپ کہاں کے آزاد ہیں؟ کیا آزادی صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں بغیر کسی کی اجازت کے گھومنے پھرنے تک محدود ہو چکی ہے؟ بھئی ہماری زبان تک غلام ہے ہمارے کردار بلکہ ہمارے تخیلات تک میں اشرافیہ کی اسیری کے سائے منڈلاتے ہیں۔ ہمارا ہر فرد طبقاتی استحصال کا شکار ہے۔ کیا یہی پاکستان کا مقصد تھا کہ جس کے انصاف کے مقابلے میں اشرافیہ کی طاقت کے مظاہرے کیے جائیں کہ جس میں قوم کے اتحاد کو بغاوت کا نام دیکر غارت کیا جائے کہ جس میں قوم کی خیرت انگیز فلاح و بہبود کرنے والوں پر کوئی مقدمہ ڈال کر یا دہشتگرد کہہ کر مار دیا جائے۔
آپ موجودہ انتخابات سے ملک میں چند طاقت ور ترین نمائندوں کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جمہوریت کس طرف ہے اور لایا کس کو جارہا ہے۔ اس ارض پاک میں جس طرح حق بات اور تنقید براہ اصلاح پر پابندی ہے بالکل اسی طرح یوں لگتا ہے جیسے کہ اپنی اصلاح خود کرنے پر بھی کوئی پابندی ہے۔ لوگ (ادارے) خود کی اصلاح تک نہیں کرنا چاہتے اس بات کی اقبال نے جاوید نامہ میں کچھ اس طرح سے منظر کشی کی ہے کہ چشم برحق باز کردن بندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک آپ دیکھ لیجیے وہاں حق سچ اور انصاف بالکل آزاد ہیں۔ وہاں صحافت آزاد ہے۔ وہاں سوال آزاد گھومتا ہے۔ عوامی اظہار رائے کی قدر ہے عام عوام کی پہنچ سے کوئی بھی بڑی شخصیت دور نہیں۔ ان پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈالا جاتا ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور جواب دینا بھی وہ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
آزادی اظہار رائے کا مکمل حق سب کو حاصل ہے جس کا تصور بھی مسلم دنیا میں بالخصوص یہاں نہیں کیا سکتا۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ مسلم دنیا میں طویل المدت عرصے تک حکمرانی کے بعد جمہوریت یا شہنشایت کے ذریعے سلسلہ در سلسلہ خاندانی وراثت کو فروغ دینے میں دلچسپی لی جاتی ہے۔ آپ موجودہ پاکستان کی سیاست پر ہی ایک نظر ڈال لیں آپ کو ماضی دور تک کوئی نیا بندہ نظر نہیں آئے گا سب کے سب نسل در نسل اپنا حق سمجھ کر ملک کو لوٹ رہے ہیں اور نئے اور قابل لوگوں کو موقع ہی نہیں دیا جاتا اس ڈر سے کہ کہیں ملک ترقی کے راستوں میں گامزن ہوگیا تو ہم کہاں سے کھائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اختلاف یا تنقید کو عام طور پر بغاوت کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے اور پھر آپ کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے آپ ماجودہ سیاست اور ان کے کارناموں سے باخوبی واقف کار ہیں۔ ہمیں اپنی آزادی کیلئے اپنی عدالتیں۔ حق سچ۔ اور اختلافی رائے یا آزادی اظہار کا حق سب کو میسر کرنا ہوگا۔ ہم کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے اور ویسے بھی یہ ہم مسلمانوں کی فطرت ہے کہ اپنی ہی پیدہ کردہ کمزوریوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھے جرم پر دوسروں (یعنی) مغرب پر الزام ٹھونپ دیتے ہیں
ہر بات پر ایسا کہنا ہماری فطرت بن چکی ہے کہ اس میں ضرور مغرب کی سازش ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے حقیقی مسائل خارجی نہیں بلکہ داخلی ہیں۔ ہم خود سارے کرپٹ ہوچکے ہیں چور ہو چکے ہیں ہم ایک کرسی کی خاطر نہیں دیکھتے کہ اس کو حاصل کرنے کیلئے کس کس کا خون بہے گا بہنے دیتے ہیں۔ کس کس کی تزلیل ہوگی ہونے دیتے ہیں۔ کس کس میں اختلاف ہوگا ہونے ہونے دیتے۔ ہمارے تو خون میں کرپشن اور بد کرداریت سرائیت کر چکی ہے۔ ہمیں نئے چہرے نہیں بلکہ نیا نظام چاہیئے۔ تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سر گرم تقاضا ہے اقبال اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں نفس سوختہ، شام و سحر تازہ کریں