خواب کیا کوئی دیکھے، نیند کے انجام کے بعد
کس کو جینے کی ہوس، حشر کے ہنگام کے بعد
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ، اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے، مگر کام کے بعد
ایک ہی اِسم کو بارش نے ہرّا رکھا ہے
پیڑ پہ نام تو لکھے گئے اُس نام کے بعد
ہندسے گِدھ کی طرح دن مِرا کھا جاتے ہیں
حرف ملنے مجھے آتے ہیں، ذرا شام کے بعد
موت وہ ساقی کہ جس کے کبھی تھکتے نہیں ہاتھ
بھرتی جائے گی سدا جام، وہ اِک جام کے بعد
تھک کے میں بیٹھ گئی اب مگر اے سایہ طلب
کس کی خیمے پہ نظر جاتی تھی ہر گام کے بعد
(محمد فاروق راجہ‘تھوہا خالصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو یوں بھی روکنا دل کو بہت ضروری ہے
ہماری پہلی محبت ابھی ادھوری ہے
اب اک لباس کو کب تک کوئی گوارا کرے
یہ کائنات بظاہر تو مجھ کو پوری ہے
گلاب شاخ پہ ہم کو پسند ہیں ورنہ
یہ ایک ہاتھ کی دوری بھی کوئی دوری ہے؟
میں کہ رہا ہوں کہ قابو نہیں رہا خود پر
وہ کہ رہی ہے کہ کوشش تری شعوری ہے
سمے کے ساتھ بدلتی ہیں خوا ہشیں دل کی
کبھی جو غیر ضروری تھا‘ اب ضروری ہے
(حسن ظہیر راجا)
