239

گوجرخان کے قومی و صوبائی حلقوں کا سیاسی منظر نامہ

اخلاق احمد راجہ‘ پنڈی پوسٹ رپورٹ
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی حلقہ این اے 52 گوجرخان میں سیاسی جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے گوجرخان سے الیکشن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،تحریک انصاف،جماعت اسلامی،تحریک لبیک، فرنٹ نیشنل قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے امیدوار سامنے لائیں گئیں 2018کے الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے چوہدری عظیم نے 98000 سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جو گزشتہ دنوں 9مئی کے واقع پر اپنے ویڈیو بیان میں تحریک انصاف کو خیر باد کہہ چکے ہیں تاحال قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار سامنے نہ آ سکے ہیں لیکن پنڈی پوسٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری عظیم تحریک انصاف کی پارٹی میٹنگ بھی اٹینڈ کرتے ہیں اور ہر میٹنگ میں 9مئی کے واقع پر جاری کردہ ویڈیو بیان پر پارٹی کارکنان کو وضاحتیں بھی دیتے ہیں شاید اسی وجہ سے چوہدری عظیم نے ابھی تک کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا17

دسمبر کو چوہدری عظیم نے اپنی رہائش گاہ پر تحریک انصاف گوجرخان کے پارٹی راہنماؤں کے لیے پر تکلف ناشتے کا اہتمام کر رکھا تھا ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری عظیم نے تحریک انصاف کے مقامی راہنماؤں کو واضح پیغام دیا کہ میں NA52گوجرخان سے آمدہ الیکشن میں بطور امیدوار حصہ نہیں لوں گا بلکہ تحریک انصاف گوجرخان سے جس امیدوار کو ٹکٹ دے گی میں اس امیدوار کی بھرپور حمایت کروں گا یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ماہر قانون دان راجہ سلمان اکرم کو گوجرخان سے تحریک انصاف کا ٹکٹ جاری کیا جائے پی پی 8اور پی پی 9سے 2018 کا الیکشن جیتنے والے چوہدری جاوید کوثر اور چوہدری ساجد محمود نے بھی تا حال کسی دوسری سیاسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا اور اندرون خانہ تحریک انصاف کی مقامی اور ضلعی قیادت سے مکمل رابطے میں ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی 9سے چوہدری ساجد محمود ہر صورت الیکشن میں حصہ لیں گے

وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے بھی ٹکٹ کے اصول کے لیے دو سے تین ملاقاتیں کر چکے ہیں واضح رہے کہ 9مئی کے واقع میں جی ایچ کیو پر حملے کی ایف آئی آر کے مطابق تھانہ وارث خان پولیس کی جانب سے جو چالان عدالت میں پیش کیا گیا اس میں ملزمان کی لسٹ میں چوہدری ساجد کی گرفتاری ابھی بقایا ہے اس کے علاؤہ گوجرخان سے پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کے لیے تقریباً 26 اُمیدواروں نے درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں جن میں سر فہرست معروف قانون دان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان راجہ تنویر اختر ہیں جو مشکل حالات میں سیسح پلائی دیوار کی طرح پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان پر بننے والے درجنوں مقدمات میں پارٹی کارکنان کو قانونی خدمات فراہم کیں راجہ تنویر اختر سٹی ناظم گوجرخان بھی رہ چکے ہیں ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور سیاست کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف ہیں ان کے علاؤہ فرحت فہیم بھٹی، کرنل طارق عزیز بھٹی، سہیل کیانی،چوہدری شہزاد شامل ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی 9 سے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لیے پارٹی کو درخواست جمع کرانے والے چوہدری شہزاد عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں

گوجرخان میں جماعت اسلامی کے علاؤہ تحریک لبیک بھی اپنا بہترین ووٹ بنک رکھتی ہے بہرحال مسلم لیگ ن کے امیدوار قومی اسمبلی راجہ جاوید اخلاص اور پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ پرویز اشرف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے راجہ پرویز اشرف کا سیاسی کریئر دیکھا جائے تو راجہ جاوید اخلاص سے کافی تعداد میں الیکشن ہارنے کے بعد 2008 میں پہلی بار گوجرخان سے ایم این اے منتخب ہوئے مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی وفاقی کابینہ میں راجہ پرویز اشرف وفاقی وزیر پانی وبجلی رہے اور بعد میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اعظم بھی رہے گوجرخان میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے پوری تحصیل میں گیس اور بجلی کے میگا پراجیکٹس دئے سیکڑوں نوجوانوں کو واپڈا میں ملازمتیں دینے کی پاداش میں عدالتوں میں کیسوں کا سامنا رہا مشہور زمانہ رینٹل پاور کیس بنا جس سے راجہ رینٹل کے نام سے مشہور ہوئے اس کے باوجود 2013کے الیکشن میں راجہ جاوید اخلاص سے شکست کا سامنا ہوا گوجرخان سے قومی و صوبائی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر مسلم لیگ کو فتح حاصل ہوئی سابق وزیراعظم کو الیکشن میں شکست دینے کے باوجود راجہ جاوید اخلاص وفاقی کابینہ میں کوئی بھی وزارت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تاہم وہ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رہے اور حلقے میں اپنے دونوں ایم پی ایز راجہ شوکت عزیز بھٹی اور افتخار احمد وارثی کے ساتھ مل کر بیش بہا ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے 2018

کے الیکشن میں گوجرخان سے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے لیکن وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کی وجہ سے پرویز اشرف ایک روپے کا ترقیاتی منصوبہ حلقے میں نہ لا سکے بعد ازاں پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پی ڈی ایم کی حکومت بنی راجہ پرویز اشرف سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ذرائع کا کہنا ہے کہ راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی سمیت
مختلف وفاقی اداروں میں پیپلز پارٹی کے سیکنڑوں کارکنان کو ملازمتوں سے نوازا حلقے میں پیپلز پارٹی کے کارکنان کو بجلی اور گلیوں کے بیش بہا منصوبے دئے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے حلقے کے پارٹی کارکنان میں کلاشنکوف کے سیکنڑوں لایسنس پرمٹ بانٹے گئے پرویز اشرف کے برادر اصغر راجہ جاوید اشرف نے واپڈا سمیت مختلف اداروں پر خوب گرفت بنائے رکھی جس کا جاوید اشرف مختلف سیاسی میٹنگز اور جلسوں میں برملا اظہار بھی کرتے رہے سوشل میڈیا پر بھی راجہ جاوید اشرف کا خوب چرچا رہا اس کے باوجود حلقے میں پیپلز پارٹی کا نظریاتی ورکر راجہ پرویز اشرف سے نالاں نظر آتا ہے کسی کا بچہ بھرتی نہیں ہوا تو کسی کو ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کیا گیا ہے اس کے بر عکس مسلم لیگ ن کے راجہ جاوید اخلاص پی ڈی ایم کی حکومت کے باوجود حلقے میں خاطر خواہ ترقیاتی کام نہ کرا سکے الیکشن کا بگل بجتے ہی حلقہ کے عوام آئے روز مختلف یونین کونسلوں سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو خیر باد کہ کر جوک در جوک راجہ جاوید اخلاص پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں

سیاسی پنڈتوں نے موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آمدہ الیکشن کے لیے راجہ پرویز اشرف کے مقابلے میں راجہ جاوید اخلاص کو فیورٹ قرار دے دیا ہے راجہ جاوید اخلاص اس سے قبل متعدد بار ایم پی اے اور ضلع ناظم راولپنڈی بھی رہ چکے ہیں 40سالہ سیاست میں آج تک راجہ جاوید اخلاص پر ایک روپے کی کرپشن کا کیس نہ بنا۔بات اگر گوجرخان سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی کی جائے تو 2018کے الیکشن میں پی پی 8 سے راجہ پرویز اشرف کے فرزند راجہ خرم پرویز کو تحریک انصاف کے چوہدری جاوید کوثر سے شکست کا سامنا ہوا اور پی پی 9 سے پیپلز پارٹی کے چوہدری سرفراز خان نے 32000ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ ن کے راجہ حمید ایڈووکیٹ 29000 ہزار آزاد امیدوار فیصل بھٹی راجہ شوکت عزیز بھٹی کے برادر اصغر نے تقریباً22000ووٹ آزاد حیثیت میں لئے پی پی 9سے تحریک انصاف کے امیدوار صوبائی اسمبلی کے امیدوار چوہدری ساجد محمود52000ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے اور یوں گوجرخان سے صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی کی جانب سے پی پی 8 سے ماسٹر اعظم پرویز ایم پی اے کے امیدوار تھے جن سے ٹکٹ واپس کر کے خرم پرویز کو امیدوار نامزد کر دیا گیا ہے خرم پرویز کے پی پی 8 سے الیکشن لڑنے سے پی پی 9میں چوہدری سرفراز خان کے لیے ٹکٹ کی راہ ہموار ہو چکی ہے

پی پی 9 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی دوڑ میں راجہ حمید ایڈووکیٹ، شوکت عزیز بھٹی اور قاضی وقار سرفہرست ہیں راجہ حمید ایڈووکیٹ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اسی حلقہ سے تین بار 2002,2008اور2018میں الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کو سیٹ دلوانے میں ناکام رہے اس کے برعکس شوکت عزیز بھٹی حلقہ پی پی 9سے دو بار ایم پی اے رہے 2018کے الیکشن میں مسلم لیگ ن سے ٹکٹ نہ ملنے پر چھوٹے بھائی فیصل عزیز بھٹی کو آزاد امیدوار کے طور پر سامنے لا کر 22000 ووٹ حاصل کیے بات قاضی وقار کی کی جائے تو گزشتہ تقریباً ایک سال سے حلقہ میں کافی متحرک نظر آ رہے ہیں ورکرز سے رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں اس بار میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرانے والے امیدواروں کے خود انٹرویوز لے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑے رہنے والے وفادار ساتھیوں کو ٹکٹ جاری کیا جائے گا بہر حال حلقہ این اے 52گوجرخان
میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مقابلہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے درمیان ہو گا مسلم لیگ ن کے راجہ جاوید اخلاص اور پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کے الیکشن میں جیت کا فیصلہ پی پی 8 اور پی پی9 کے امیدواروں کے انتخاب پر ہی ہو گا الیکشن میں مضبوط امیدواروں کا انتخاب ہی گوجرخان سے جیت کا ضامن ہو گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں