ایک بوڑھے شخص نے طبیب سے کہا کہ میں ضعفِ دماغ میں مبتلا رہتا ہوں۔ طبیب نے کہا کہ یہ ضعفِ دماغ بڑھاپے کے سبب سے ہے۔ پھر اس نے کہا کہ میری آنکھ میں دھندلا پن آگیا ہے۔ طبیب نیجواب دیا کہ اے مردِ بزرگ! یہ بھی بڑھاپے سے ہے۔ اس نے کہا کہ میری کمر میں درد رہتا ہے۔ طبیب نے کہا یہ بھی بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔ پھر اس نے شکایت کی کہ کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ طیب نے کہا ضعفِ معدہ بھی بڑھاپے کی علامت ہے۔ پھر بوڑھے نے کہا کہ میرا سانس رک کر چلتا ہے۔ طبیب نے کہا کہ ہاں جب بڑھاپا آتا ہے تو سو بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ سانس بھی رک جاتا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ میرے پاؤں بے کار ہوگئے چلا نہیں جاتا۔ طبیب نیکہا کہ میری کمر دہری ہوگئی۔
اس نے جواب دیا کہ یہ بھی ضعیفی سے ہوئی ہے۔ آخر کار (جھنجھلا کر) بوڑھے نے کہا کہ اے احمق تو ایک ہی بات رٹے جاتا ہے! کیا فنِّ طبابت میں تونے بس یہی سیکھا ہے۔ ارے بد دماغ! خدا نے ہر درد کی دوا مقرر کی ہے۔ تو احمق گدھا اپنی ناواقفیت کی وجہ سے زمین پر پڑا لوٹ رہا ہے۔ پس طبیب نے جواب دیا کہ اے پیرِ فرتوت! یہ تیرا غصہ بھی بڑھاپے کے سبب ہے۔ جب سب اجزا و اعضا کمزور ہوگئے تو صبرو ضبط کی قوت بھی کم ہوگئی۔ جسے بات کی برداشت نہیں ہوتی وہ گرم آواز نکالتا ہے اور جو ایک گھونٹ پچا نہیں سکتا اسے قے ہوجاتی ہے۔ ہاں مگر وہ بوڑھا جو حق کا متوالا ہے اس کے اندر پاک زندگی ہے ایسا شخص ظاہر میں بوڑھا اور باطن میں بچہ ہے۔(سائرہ اصغر)