190

اقبال کے شاہین

اِدھر تین جون کا منصوبہ پیش ہو چکا تھا ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا پروانہ جاری ہو چکا تھا اُدھر کشمیر کی تحریک آزادی بھی شدت اختیار کر چکی تھی 14اگست کو دنیا کے نقشہ پر دو ملک معرض وجود میں آگئے اُدھر 19جولائی کو قرارداد الحاق پاکستان غازی ملت سردار ابراہیم کے گھر واقع سری نگر میں پاس ہو چکی تھی ریاست کا مہاراجہ ہندوڈوگرہ تھا ریاستی مسلمان 80فیصدتھے بیس فیصد دیگر مذاہب کے لوگ تھے خدشہ تھا کہ کہیں مہاراجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ہندوازم کی بنیاد پر نہ کر دے پونچھ میں مجاہدین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا 29اگست کو دوتھان کے مقام پر ڈوگرہ فوج کے خلاف پہلی کارروائی میں پانچ مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا 3

اکتوبر کو جنگ میں جج جگت رام کا قتل اور دھیر کوٹ تھانہ پر حملہ کر کہ ڈوگرہ سامراج کی بنیادیں ہلا دیں۔اُدھر کیپٹن حسین خان نے اکتوبر1947کو آزادپتن پر حملہ کر دیا یوں جہاد آزادی کا آغاز ہو گیا۔کیپٹن حسین خان جو مجاہدین کے کمانڈر انچیف تھے ان کی جائے پیدائش راولاکوٹ سے 10کلو میٹر دور گاؤ ں میں ہوئی جو کالاکوٹ کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا بعد میں اس گاؤں کا نام تبدیل کر کے کیپٹن حسین خان کے نام پر حسین کوٹ رکھا گیا۔وہ برطانوی فوج سے ریٹائر فوجی آفیسر تھے ڈوگرہ حکمرانوں کے جبر و استبداد کو للکارا اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی سے مجاہدین کے لیے ہتھیار خریدے سر زمین کشمیر میں جس عظیم قربانی کا مظاہرہ اس مرد میدان نے کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے اس عظیم مجاہد نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتاتب تک اپنی بیوی کے ہاتھوں پکائی ہوئی روٹی نہیں کھاؤں گا

بہت جلد انھوں نے اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے مجاہدین کو منظم کیا علاقہ پونچھ کے زیادہ لوگ فوجی ریٹائرڈ تھے برطانوی فوج میں فرائض انجام دیے اور نام پیدا کیا بہت سے لوگ ایسے تھے جو ابھی تک برطانوی فوج میں فرائض انجام دے رہے تھے لیکن جب اسلام اور وطن نے پکارا تو لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے اور مجاہدین کے جتھوں میں شامل ہو کر میدان کار زار میں اُتر گئے کیپٹن حسین خان نے مجاہدین کے جتھوں کو جس طرح منظم کیا اور مختلف محازوں پر تعینات کیا یہ ان ہی کی لیاقت اور اہلیت تھی چونکہ یہ تنخواہ دار فوجی نہ تھے بلکہ رضاکارانہ طور پر اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی کی خاطر لڑنے والے مجاہدین تھے آزاد پتن سے شروع ہونے والی یہ جنگ پھیل کر ایک طرف میر پور اور کوٹلی اور دوسری طرف مظفرآباد کے بلند و بالا پہاڑوں میں لڑی جانے لگی بہت جلد اس عظیم مجاہدنے کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کیں اور پتن سے لے کر راولاکوٹ کے علاقہ خالی کروا لیا راولاکوٹ کا مورچہ بہت مظبوط تھا مجاہدین کے پاس سامان ضرب و حرب نہ ہونے کے برابر تھا کلہاڑیوں اور درانتیوں سے یہ جنگ لڑی جارہی تھی ایمانی جذبہ اور نصرت خداوند اس جہاد کی اصل روح تھی راولاکوٹ کا مورچہ توڑنے کے لیے بہت سے مجاہدین نے رضاکارانہ طور پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مورچہ توڑا اور ڈوگرہ فوج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا یہ جوان اقبال کے شاہین بن کر پہاڑوں میں، دریاؤں میں، وادیوں میں جھپٹے پلٹے اور خوب جھپٹے ان کی نظرمیں شہادت کا دوسرا نام قوم کی حیات تھا اور ان کے شعور میں ”بل احیاء ولکن لا تشعرون“کی قرآنی حقیقت تھی دوسری طرف میرپور کے محاذ پر خان آف منگ کو بطور کمانڈر تعینات کیا

جنھوں نے اپنے فوجی تجربہ اور حکمت عملی سے مجاہدین کو منظم کیا اور جلد اس علاقہ کو بھی آزاد کروا لیا 11نومبر 1947کو یہ عظیم مجاہد دشمن کی فوج پر قہر بن کر جھپٹا
یہاں تک کہ وہ بھاگ کر پونچھ شہر میں محصور ہو گئے پونچھ شہر کو آزاد کروانے کا منصوبہ پائے تکمیل کو پہنچنے ہی والا تھا کہ تولی پیر کے جنگلوں میں چھپے ڈوگرہ فوج نے گولی چلائی اور یہ عظیم مجاہد جام شہادت نوش کر گیا آزاد پتن سے تولی پیر تک 3اکتوبر سے 11نومبر تک یہ مجاہد خود بھی جاگتا رہا اور ڈوگرہ فوج کو بھی جگائے رکھا اس وقت کے فوجی کمانڈروں کی یہ رائے تھی کہ اگر حسین خان تھوڑا عرصہ اور زندہ رہتے تو کشمیر کبھی محکوم نہ رہتا لیکن قدرت کو منظور ہی یہی تھا کچھ اپنوں کی نے وفائی اور کچھ غیروں کی دشمنی کہ کشمیر آج تک آزاد نہ ہو سکا اسی لیے کہتے ہیں کہ لیڈر کی لمحہ کی غلطی قوم کو صدیوں بھگتنی پڑتی ہے۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں