بیروزگاری نئے انداز اور شکل تبدیل کر کے ہمارے سامنے اژدھا بن کر کھڑی ہو چکی ہے اس کا ادراک ان لوگوں کو بخوبی ہے جن کے بچے جوان ہو چکے تعلیم حاصل کرنی ہے اوروسائل کی عدم دستیابی کی باوجود آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں دوسرے بچے دولت کی دستیابی تعلیم ہونے اور وسائل کے باوجودبیرون ملک جانے کے لئے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے دینے کو تیارہیں ملک کے اندر جس طرح کی خدمات کے عوض کمائی کی جاسکتی ہے اس سے دلی اطمینان نہیں بلکہ شرمندگی کا امکان زیادہ ہوتا ہے دو طرح کے روزگار عام آدمی کے لئے ہیں ایک سول ورک ہے جس میں ہاتھ سے کرنے والے کام ہوتے ہیں زمین کی کھدائی سے لے کر تعمیراتی میڑیل کے استعمال جیسے کام جو سخت مزدوری کے شعبے ہیں کم پڑھے لکھے اور صحت مند آدمی یہ کام کر سکتے ہیں
ایسے کام کرنے والوں کو معیاری خوراک کا استعمال ضروری ہوتا ہے ان کاموں کی انجام دہی کے لئے مسلسل صحت کا اچھارہنا ضروری ہوتا ہے ہنر مند لوگ لکڑی کے کارپینٹر مستری کا کام، پلمبرنگ،ویلڈنگ رنگ وروغن، مالی کا کام یہ سب ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دماغی ذہانت کے مرہون منت ہوتے ہیں ان کاموں کے لئے بنیادی کور سز کی طرف راغب کرنے میں صوبائی حکومتیں نا کام ہوتی ہیں بڑی بڑی صنعتیں روزگار پیدا کرتی ہیں سرمایہ دار سہولتیں مانگتے ہیں حکومتی
ادارے ان کو سہولتیں دینے کے بجائے تکلیفیں،دشواریاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ٹیکس کے علاوہ بھی ایسی ادائیگیاں کرنا پڑی ہیں جن کا حساب کتاب نہیں رکھا جا سکتا ہے ان دشواریوں سے بچنے کے لئے یہ لوگ سیاسی جماعتوں یا شخصیات کی خوشنودی کے لئے ان پر دولت خرچ کرتے ہیں
ان کے حکومت میں آنے کی وجہ سے کچھ عرصہ ان کو ربلیف مل جاتا ہے خواتین ہمارے ملک کی آدھی آبادی پر مشتمل ہیں تعلیم میں بھی آگے ہیں اور روزگار بھی کرنا چاہتی ہیں مگر معاشرتی سسٹم میں ان کی جگہ نہیں بن رہی ہمارے معاشرے مین خواتین گھر سے باہر محفوظ نہیں اور نہ اطمیان سے آزادانہ نقل وحرکت کر سکتی ہیں موجودہ صورتحال خواتین کے کام کرنے کے لئے بلکل صحیح نہیں ہے جو خواتین کام کے لئے گھر سے نکلتی ہیں ان کو بہت مشکلات کا سامنا ہے درس وتدریس اور میڈیکل کے میدان میں خواتین خدمات تو دے رہی ہیں لیکن وہاں کا ماحول اور حالات بھی تسلی بخش قرار نہیں دئیے جا سکتے لہذا خواتین کے لئے گھروں میں رہ کر کام کے مواقع پیدا کرنے ہوں لگے جس کے لئے منصوبہ جات بناتے بہت ضروری ہیں اعلی ٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے مواقع کی بھی کمی ہے وہ بھی معاشی حالات کی وجہ سے جزوی بے روزگار ی کا شکار ہیں
بے روزگار ی کی ایک وجہ اہداف کا واضح نہ ہونا بھی ہے ہماری حکومتیں پیداوار، بر آمدات کا ہدف عوام کو صحیح وقت پر نہیں بتاتی ہیں ایک وقت میں کون سے کاموں پر بھر پور توجہ دی جاتے تاکہ ایک میدان میں کامیابی حاصل ہو پھر دوسرے کی طرف توجہ دی جائے ایک ایک آدمی کی گنتی تو ہے مگر اس کی تعلیم،صلاحیت کا قومی ڈیٹا نہیں ہے ہر ایک کے لئے کھلا میدان چھوڑ رکھا ہے کہ جوچاہے وہ کرے جن قوموں کے اہداف میں خود کفالت نہیں شامل ہوتی ہے وہ اسی طرح بے ہنگم کوشش کرتے ہیں اتنی بڑی آبادی ہمارے منصوبہ سازوں کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوں تباہ ہو جائے یہ کہاں کا انصاف ہو گا اس وقت جتنے بھی شعبے فعال ہیں وہ قومی خزانہ کا استعمال کرتے ہیں قومی خزانہ میں دولت لانے کے ذرائع ہمارے پاس فعال نہیں ہیں عام آدمی کی رسائی اس
خزانے کے استعمال والوں میں نہیں آتی وہ اپنے طور کوششوں سے جو دال ساگ کما اور کھا سکتا ہے اس میں مشغول رہتا ہے اس کو وہ اپنی زندگی کا محور بناتا ہے اور گذر اوقات کر رہا ہے
سیاست دانوں کی ناقص کار کردگی، وقت کے ضیاع اور غیر ضروری سیاسی بحث مباحثہ میں وقت ضائع کرنے کی عادت کی وجہ سے عوام ان سے مایو س ہو چکے ہیں حالیہ سیاست سے وابستہ لوگ اسی وجہ سے بے روزگار ہیں اب ایک عارضی بندوست کے تحت ٹیکنو کر ٹیس کو آگے بڑھایا گیا ہے کام کی رفتار اور وقت یہ ثابت کرے گا کہ یہ تجربہ کیسا رہتا ہے بہر حال ہماری قومی حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک وسائل کا جائز استعمال ہر ایک کے حق میں برا بر نہ ہو خوشحالی کے ثمرات امیر، غریب، چھوٹے بڑے ہر ایک کے چہرہ سے نمایاں نہ ہوں غربت اور بھوک جب آتی ہے اس سے سارے متاثر ہوتے ہیں ہمارے پاس تو پہلے بھی انسانی جان ہی نذرا نے کے قابل ہے ان حالات نے اب یہ بھی مشکل بنادیا ہے اس کے بھی ضائع ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں نوجوان ترقی یا فتہ ممالک میں جانے کے لئے اپنی جانیں سمند روں کی نذر کر رہے ہیں ملک میں وڈیروں جا گیرداروں کی جائیداد وں کی حفا ظت اور آباد کر نے میں کئی لوگ نسلوں تک کی قربانی دے رہے ہیں اور اب غربت، بیماری اور بے روز گاری ان کی جان لینے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔