145

رزق حلال میں شفاء و سکون ہے

اتوار کی چھٹی انجوائے کرنے کے لیے دوست کے ہمراہ قریبی پارک میں گیا بیٹھتے ساتھ ہی دوست نے سکول کا زمانہ یاد کرتے ہوئے بات چیت شروع کردی اسی لمحے ضعیف العمر بابا جی ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے میں تھیلا پکڑے سامنے دکھائی دئیے۔دیکھتے ہی میں نے ا نہیں پہچان لیا یہ وہی صاحب جی ہیں جو گاڑی میں گاہے بگاہے سوار ہوکر سکول جایا کرتے تھے یہ کسی ادارہ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے جب کبھی گاؤں میں آتے تو پیدل چلنے والوں بلخصوص طالبعلم بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا کرتے تھے

میں نے اٹھ کر سلام کیا اپنا اور دوست کا تعارف کروایا تو وہ بغل گیر ہوئے ماتھے پر بوسہ دینے کے بعد ساتھ ہی تشریف فرما ہوگئے باریش ہونے کی وجہ سے ان کی داڑھی کے بال بری طرح بکھرے ہوئے اور لباس بھی انتہائی خستہ حالی کا منظر پیش کررہا تھا چہرے پر پڑی جھریاں پریشانیوں کی نشاندہی کررہی تھی ان کی حالت دیکھ کر پہلے کھانے کی پیشکش کی تو انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے صرف پانی کا کہا دوست پانی لینے کینٹین کی جانب نکل گئے

ظاہری حالت تو دیکھی تومحسوس ہوا کہ شاید بزرگ نفسیاتی مرض میں مبتلاء ہیں لیکن دو تین منٹ کی بات چیت سے میرے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے میں نے مزید جانچنے کی کوشش کہ آخر کو معاملہ ہے کیا؟ جوانی میں کپڑوں پر سلوٹ تک نہ پڑنے دینے والا، خوش لباس رہنے والا شخص اتنا پریشان حال کیوں ہے ان سے حالات زندگی جاننے کی کوشش کی تو رنجیدہ ہوگئے

اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ چند برس قبل بیٹے کی گاڑی حادثہ کا شکار ہو ئی بہو تو موقع پر اللہ کو پیاری ہوگئی تھی پوتے پوتیاں بال بال بچ گئے بیٹے کی جان تو بچ گئی لیکن ٹانگیں کٹ جانے کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوکر گھر بیٹھنے پر مجبور ہوگیا چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لیکن کمانے والا کوئی نہیں

دوسرا بیٹا پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ تھا لین دین کے سلسلہ میں لوگوں کو بنک چیک دئیے ہوئے تھے ایک دو ڈیلز میں خسارہ ہوا دوسرا کام میں بھی رکاوٹیں آنا شروع ہوگئیں اور اپنا سرمایہ نہ ہونے کی صورت میں چیک ڈس آنر ہونے پر گزشتہ چار ماہ سے جیل میں ہے اتنے پیسے بھی نہیں کہ وکیل کو فیس ادا کرکے ضمانت کی درخواست دی جا سکے

چونکہ میرے والد صاحب کے نمبردار ہونے کی وجہ سے پٹواری اور محکمہ مال والوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے جن کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا تھا بس تھوڑا بہت دے دلا کر اور سرکاری فیس ادا کرکے گاؤں کے تالاب تک اپنے نام منقتل کرالیے پولیس والے بھی عزت کرتے تھے اس لیے جہاں کہیں زمینوں کے قبضہ کا معاملہ ہو وہ اپنے اثرو رسوخ سے چھڑالیتے اس کے عوض بھی کچھ نہ کچھ زمین حاصل کرلیتے متنازعہ زمین کو سستے داموں خریدنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا

الغرض انہوں نے اپنی زندگی میں خوب زمینیں و جائیدادیں بنائیں اور مال و دولت اکٹھی کی ہمارا نام گاؤں میں کیا پورے علاقہ میں امیروں کی فہرست میں شامل ہوتا تھا ہم پر تعیش اور پرسکون زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک کہ ایک دن والد صاحب کا اپنے ہی خاندان کے لوگوں سے زمین کے معاملہ میں تنازعہ ہوگیا لڑائی جھگڑا آئے روز کا معمول بن گیا ایک دن مخالفین نے اکٹھے ہوکر اچانک ہی والد صاحب پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے شدید زخمی ہوگئے بھائی کو علم ہوا تو اس نے طیش میں آکر فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر مخالف گروپ کا بندہ جان کی بازی ہار گیا

والد صاحب کو شہر کے بہترین اور مہنگے ترین ہسپتال پہنچایا علاج پر لاکھوں خرچ کیے پھر بھی مکمل آفاقہ نہ ہواایک سال تک صاحب فراش رہنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اس دوران بھائی گرفتار ہوئے جیل میں چلے گئے بعد ازاں مخالفین نے قتل کا بدلا لینے کے لیے میرے چھوٹے بھائی کا راستہ روک کر کلہاڑیوں سے وار کرکے قتل کردیا بارہ سال تک مقدمے چلے زمین تک بیچ کر مقدمات کے اخراجات برداشت کیے اور گھرکا سلسلہ بھی باعزت جاری رکھا

بالا آخر جو رہتی زمین تھی اس کو فروخت کرکے مقتول کے ورثاء کوقصاص ادا کرکے راضی نامہ پر بھائی جیل سے باہر آئے لیکن قسمت ہاری کہ وہ نشہ کے عادی بن چکے تھے ان کا علاج کروایا لیکن سب بے سود ثابت ہوا اب وہ بھی در بدر کے دھکے کھانے مجبور ہیں ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرہ پر بوجھ بنے ہوئے ہیں بیوی بیٹا کے حادثہ میں بہو کی ناگہانی موت بیٹے کی معذوری اور بچوں کی دیکھ بھال نہ ہونے کی ٹنیشن لے کر بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ بن چکی ہے

یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ مجھے یہ کہتے ہوئی شرم آرہی ہے میرے پاس ان کے لیے ادویات خریدنے کے لیے بھی رقم نہیں ہے میری بیوی نے ساری زندگی میری خدمت کی ہے پیار دیا ہے لیکن اب اس پر مشکل وقت آیا ہے میں کچھ بھی نہ کرسکا میں جیتے جی مرگیا ہوں میرا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان کی باتیں سن کر میرا دل بھی بھر آیا آنکھیں آنسو سے بھر آئیں ادویات کی خریداری اور گھریلو اخراجات کے لیے حسب توفیق مالی امداد کی پانی پی کر وہ دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے

لیکن ہمارے اندر ایک سوچ ایک سبق چھوڑگئے کہ ناجائز ذرائع اور حق داروں کی حق تلفی سے کمائی دولت کی تسکین عارضی اور نمودونمائش چند دنوں کی مہمان ہوتی ہے کمزور اور غریب سائلین کی بددعائیں اور آہیں نسلوں کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہیں رزق حلال میں عاجزی برکت شفاء اورسب سے بڑھ کر سکون و راحت ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں