220

بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سپریم کورٹ کی کاوشیں/چوہدری عبدالخطیب

میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں بلدیاتی الیکشن کے انعقادکے حوالے سے اتفاق ہوگیا ہے سپریم کورٹ نے تحریری شیڈول 10 مارچ کو طلب کیا ہے سپریم کورٹ کے بار بار اعتراضات اور حکم پر الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن ایک مرحلے میں 20 ستمبر کو اور خیبر پختونخوا میں 30 مئی اور کنٹونمنٹ بورڈز میں 25 اپریل کو کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

پنجاب میں گزشتہ دس برس سے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا ہے جبکہ آئین کے مطابق ہر چار سال بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروانا ضروری ہے لیکن اگر ماضی میں دیکھا جائے تو جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتوں نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروانے میں ہمیشہ غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے انتخابات سے راہ فرار ہی اختیار کیے رکھا۔ اس حوالے سے جمہوریت پر شب خون مارنے والوں نے ہی عوام کے مسائل کو بنیادی سطح پر حل کروانے کیلئے ہر دور میں ایک نیا بلدیاتی نظام متعارف کرواکر اس کے انعقاد کو یقینی بنایا جس کی وجہ سے ایک طرف شہریوں کے مسائل گاؤں ومحلے کی سطح پر حل ہونے شروع ہوگئے اور دوسری جانب انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیکر ملک کے اہم عہدوں پر فائز بھی ہوئے اس لیے بلدیات کو جمہوریت کی نرسری بھی کہا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہماری جمہوری حکومتوں نے اس نرسری کو پھلنے پھولنے سے ہمیشہ روکے رکھا اور اپنی قانون سازی جیسی اہم ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے لوکل گورنمنٹ کی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے ترجیح دی اور گلی محلے کی سیاست اور بنیادی سطح کے عوامی مسائل کو حل کرنے کو فوقیت دی تاکہ اس کے بل بوتے پر آئندہ الیکشن میں دوبارہ عوام کے دروازے پر دستک دینے کے قابل ہونے کے فارمولے کو مدنظر رکھا گیا لیکن ان کے لیے صوبائی اور قومی اسملبیوں کے اجلاس میں شرکت کے ساتھ ساتھ لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی کے وسیع ترین حلقوں میں کماحقہ وقت دینا انتہائی مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے نامزد نمائندوں اور رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے ہی عوامی مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی بناء پر حلقہ میں عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہونے کی بجائے شہری ٹاؤٹ مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہوکر رہ گئے‘ برادری ازم کی وجہ سے اکثریت نے اقلیت کو اپنا غلام تصو ر کرتے ہوئے من مانے فیصلے کرائے جاتے رہے جس کے توڑ کیلئے جنرل مشرف کے آمریت کے دور میں ہی ایک طویل عرصہ بعد لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت بلدیات کا نیا نظام متعارف کرواتے ہوئے پوری یونین کونسل کو ایک وارڈ بنا کرکسان ‘مزدور اور خواتین کیلئے الگ الگ نشتیں رکھ کر ہر طبقہ کے لوگوں کو یونین کونسل سے لیکر تحصیل اور ضلع کونسل تک نمائندگی کا حق دیکر انتخابات کروائے جس کی وجہ سے شہریوں کے مسائل بنیادی سطح پر حل ہونے شروع ہوئے اور تمام فنڈزضلعی حکومتوں کو ٹرانسفر ہونے کی وجہ سے یونین کونسل کی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کو منتخب نمائندوں کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا گیا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو مچھلی منڈی کے ماحول سے نجات دلانے کیلئے امیدواروں کیلئے گریجویشن کی تعلیم کا ہونا لازمی قرار دیدیا تاکہ منتخب گریجویٹ اسمبلی حقیقی معنوں میں عوام کے حقوق کی پاسداری کیلئے قانون سازی کرسکے لیکن اس کے بعد منتخب اسمبلی نے پہلے توگریجویشن تعلیم کی شرط ختم کروائی اور بعدازاں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریز کیا جو سلسلہ ہنوز لٹکا ہوا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈیڑھ سال قبل بنیادی حکومتوں کے قیام کیلئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے حکومت کو آئین پر عملدرآمد کروانے کیلئے مجبور کیا تو ن لیگ کی حکومت کی ایما پر الیکشن کمیشن نے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے شیڈول کا اعلان کیا جس کے لیے امیدواروں نے انتخابی مہم پر لاکھوں روپے خرچ کیے لیکن جیسے ہی افتخار محمد چوہدری عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تو حلقہ بندیاں میں سیاسی مداخلت کو جواز بنا کرانتخابات کو ملتوی کردیا گیا اور اب دوبارہ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کروانے میں رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن وفاق اور پنجاب حکومت کی جانب سے ابھی تک تائید کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے امیدوار ابھی تک تذبذب کا شکا ر ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت تاحال بلدیاتی انتخابات کروانے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی چونکہ حکومت تحریک انصاف کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں عمران خان کی پارٹی بنیادی سطح پر کامیاب ہوگئی تو آئندہ جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن کو پنجاب میں سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے وہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور اب عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ آئین پر عملدرآمد کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اگرریاست کے تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے نبھانی شروع کردیں تو آج بلدیاتی انتخابات کی راہ میں حائل ہونے والی مردم شماری‘ ووٹرفہرستیں اور حلقہ بندیوں میں سیاسی مداخلت جیسی رکاوٹیں سامنے نہ آتیں تو حکومتیں آئے روزکوئی نہ کوئی نیا جواز بنا کرانتخابات کو ملتوی کرنے کی جرات نہیں کر سکتیں۔ آئین کی پاسداری میں ہی ریاست اور جمہوریت کی کامیابی پوشیدہ ہے۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں