روشنیوں کے اس دور مین نوجوان لڑکے لڑکیاں شادی کے معاملے میں اپنی من مرضی کرتے ہیں وہ والدین کی مرضی کو اپنے پاس سے بھی بھٹکنے نہیں دیتے ہیں والدین کو اس وقت اپنی اولاد کی شادیوں کا علم ہوتا ہے جب لڑکا دلہن اور لڑکی دولہا لے کر گھر میں داخل ہوتے ہیں حالانکہ والدین اپنی اولاد کیلیئے جو فیصلہ کرتے ہیں اس میں اولاد کا محفوظ مستقبل شامل ہوتا ہے پیار محبت اور عشق کے بھوت کے نتیجے میں ہونے والی شادیوں کے نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں اور بعض دفعہ جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں
ایسا ہی ایک درد ناک واقعہ کلرسیداں کے نواحی گاؤں شاہ باغ کے قریب آراضی بانڈی میں پیش آیا ہے جہاں پر شوہر نے اپنی بیوی کو ڈنڈوں کے وار سے قتل کر ڈالا ہے اسماء نورین اپنے والدین کی واحد بیٹی اور چار بھائیوں کی اکیلی اور لاڈلی بہن تھی وہ تحصیل کہوٹہ کے نواحی گاؤں نڑھ کی ڈھوک کرلی کفلے کے رہائشی رسالت حسین کی بیٹی تھی والدین اور بھائی اس پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے اکیلی بیٹی اور بہن ہونے کی وجہ سے اس کو بہت زیادہ لاڈ پیار ملتا تھا جب تھوڑی بڑی ہوئی تو اسے گاؤں کے ہی ایک پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں سے اس نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی جب جوانی کی عمر کو پہنچی تو والدین جس طرح سب والدین کو علم ہوتا ہے کہ بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں والدین بچی کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے لگ گئے
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اسی دوران گاؤں کے ایک شرافت علی نامی لڑکے جس کا ماضی اور حال جرائم سے بھرا پڑا ہے اور وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں کا باپ بھی ہے نے اسماء کو اپنے جال میں پھنسا لیا والدین اور بھائیوں نے اسماء کو ہر ممکن سمجھنانے کی کوشش کی اور شرافت علی کے جھوٹے دعووؤں کو بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اسماء کے مقدر میں تباہی و بربادی لکھی جا چکی تھی جس وجہ سے اس کو اپنے والدین کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا حتی کے وہ وقت بھی آ گیا کہ اسماء نے والدین،بھائیوں سے چھپ کر شرافت علی سے شادی کر لی شادی کے ساتھ ہی شرافت علی کلرسیداں شاہ باغ کے قریب آراضی بانڈی میں کرائے کے مکان میں رہنے لگ گیا
جب والدین اور برادری والوں کو اس شادی کا علم ہوا تو والدین اور بھائیوں نے اسماء سے تمام تعلقات ختم کر دیئے اور اس کے ساتھ تمام روابط بھی ختم کر ڈالے اس شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی اسماء کے شوہر شرافت علی جس کی پہلے بھی ایک بیوی موجود تھی نے اسماء سے آنکھیں پھیرنا شروع کر دیا ہے وہ اپنی پہلی بیوی کے باتوں میں آ کر اسماء سے لرائی جھگڑا کرنے لگ گیا جس کی اطلاع کسی زریعے سے اسماء نے اپنے والدین تک پہنچائی لیکن والدین بھائی جو پہلے ہی بہت بڑے صدمے سے دوچار ہو چکے تھے نے اس کو جواب دیا کہ تم خود جان بوجھ کر بہت بڑی غلطی کر چکی ہے اور اب اس کی سزا بھی تم خود ہی بھگتو
اسماء ہر آئے روز زندگی کے نئے عذاب میں پھنستی گئی اس دوران اس پر کافی دفعہ تشدد وغیرہ کیا گیا لیکن اسماء اب بلکل بے بس ہو چکی تھی سوائے برداشت کرنے کے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا وہ دل ہی دل مین اپنے آپ کو کھائے جا رہی تھی اور کسی معجزے کے انتطار میں بیٹھی رہی کہ شاید اس کے شوہر کو اس پر کوئی ترس آ جائے لیکن شوہر کے مظالم دن بدن بڑھتے گئے ان بے رحم حالات میں زندگی کے چار برس بیت گئے والد والدہ اپنی بیٹی کے مقدر کو روتے رہے ایک بیٹی کی جدائی کا غم صرف وہی جان سکتے ہیں گو کہ ان کی بیٹی نے بہت بڑی غلطی کی تھی لیکن والدین بھائی پھر بھی اس کے انتظار میں رہے وہ اس انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ پاک کب ان کی بیٹی، بہن سے ملائے گا
لیکن کیا پتہ تھا کہ ملاقات زندہ اسماء سے نہیں بلکہ موت کی چارپائی پر ہو گی بہر حال دوسری طرف اس کا شوہر اپنی پہلی بیوی کی اشیر باد سے اسماء کو ٹھکانے لگانے کی کوشش میں مصروف رہا لیکن اس کو کوئی اچھا موقع مل نہیں رہا تھا آخر کار وہ دن بھی سامنے آ گیا جس کی بنیاد چار سال پہلے رکھ دی گئی تھی اتوار کی رات اسماء کے شوہر نے موقع غنیمت جان کر اس کو موت کی نیند سلا دیا اور خود ہی اس کے والدین کو فون بھی کیا کہ اسماء فوت ہو گئی ہے والدین اور بھائیوں پر یہ خبر آگ کی طرح ثابت ہوئی بد قسمت والد رسالت حسین کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ تھانہ کلرسیداں میں درج ہو چکا ہے لیکن ملزم تا حال گرفتار نہیں ہو سکا ہے
اس پوری کہانی سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں جو والدین کی مرضی کے خلاف شادیاں کرتے ہیں ان کے نتائج بھی اسماء کی طرح کے نکلتے ہیں اور وہ شرافت علی نے جس نے ایک بے گناہ کو مبینہ قتل کیا خود اور اپنی پہلی بیوی سمیت قتل کے مقدمہ میں پھنس گیا اور اس کے پہلی بیوی سے تین بچے والد کے جیتے جی یتیم ہو کر رہ گئے ان کا مستقبل بھی اندھیرے میں ڈوب گیا ہے دو خاندان اجڑ گئے اگر اسماء اپنے والدین کی بات مان لیتی اور شرافت علی جو پہلے ہی شادی شدہ تھا وہ اسماء نورین کو ورغلاتا نہ تو ان کے ساتھ یہ المیہ پیش نہ آتا اللہ پاک نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنے والدین کی فرمان برداری کی توفیق عطاء فرمائیں