141

شہادت ایک عظیم نعمت

اللہ رب العزت نے دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا پھر اسے طرح طرح کی نعمتوں سے مالامال کیا جیسا کہ انسان کا وجود اس کی آنکھیں چہرہ ہاتھ پاؤں وغیرہ صحیح سلامت عطاء فرمائے ان نعمتوں کی قدر ہرکوئی نہیں کرتا بلکہ ان کی قدرانسان کو تب محسوس ہوتی ہے جب انسان کسی حادثہ میں اپنے اس وجودکے کسی بھی حصہ سے محروم ہوجائے یا پھرکسی تندرست وتوانا شخص کوہسپتال جانے کا اتفاق ہو اور وہاں انسانیت کو سسکتے دیکھے ایک جگہ بیٹھے، لیٹے اور بے بسی کی تصویر بنے انسانوں کودیکھے اور اس سے بھی بڑھ کرانسان کواللہ تعالیٰ دنیا کی سب سے بڑی یہ نعمت ودولت عطاء فرماتاہے کہ اسے اسلام جیسی عظیم الشان نعمت عطاء فرماتاہے پھررب العالمین کی رحمت طرح طرح کے انعامات کا اعلان کرتی ہے اور انسان کی بخشش کابہانا بناتی ہے ان انعامات میں سے ایک انعام شہادت جیسی عظیم نعمت کابھی ہے

یہ نعمت صرف مسلمان کونصیب ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کوبے شمار نعمتیں عطاء فرمانے کے بعد انسانی جان کی صورت میں اتنی بڑی نعمت عطاء فرمائی ہے کہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایک انسان کوقتل کیاگویا اس نے پوری انسانیت کوقتل کیا جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کوبچایا یہ جان اللہ کی امانت ہے کسی شخص کوکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی شخص کوناحق قتل کردے،کسی کاناحق خون بہادے یا خودکشی کرکہ اپنی جان ضائع کردے یہ سب کام اسلام میں ناصرف حرام ہیں بلکہ اسلام نے انسانیت کے ساتھ بہت بڑا ظلم قراردیا ہے

ان صورتوں میں اسلام نے بہت سخت مذمت بھی بیان کی ہے اور وعید بھی سنائی ہے لیکن ایک تیسری صورت ہے جس میں اسلام نے اس انسان کی جان قربان کرنے کے عوض تعریف بھی کی ہے اس کے رتبہ کو بھی بیان کیاہے اوراسکی قربانی کے بدلہ میں اسے دنیا میں زندہ جاویدکہا گیا ہے قرآن مجید میں انہیں مردہ کہنے سے بھی منع کیاگیا ہے جبکہ آخرت میں اس کے مقام ومرتبہ کوبھی بیان فرمایاہے وہ ہے شہادت یعنی دین اسلام کی سربلندی کیلئے دین اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا یہ ایسا طریقہ ہے جسے مشعل راہ بھی کہاگیا ہے اور مسلمانوں کو اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے

یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ خو د تا جد ا ر انبیاء‘ نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے اس نعمت کی خواہش کا اظہار فرمایا، شہادت کی تمنا کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمدﷺ کی جان ہے اس بات سے شدید محبت کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں پھر شہیدکردیا جاؤں پھرجہادکروں پھرشہیدکردیاجاؤں پھرجہاد کروں پھرشہیدکردیا جاؤں دین اسلام اور نبی اکرم شفیع اعظمﷺ کے فرمان کے مطابق شہادت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان دین اسلام اورکلمہ حق کی سربلندی کیلئے خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردے

یاد رہے کہ اللہ کو جسم وجان اورخون کی ضرورت نہیں بلکہ تسلیم و رضا،خلوص نیت مطلوب ہے اسی لئے روزقیامت ایسا شہید جس نے شہید کہلوانے کیلئے دنیاوی مقاصدکیلئے حاصل کرنے کیلئے جان دی ہوگی اس کاخون رائیگاں جائے گا اب ساری صورتحال میں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس مقصد، مفہوم ومعنی کو غلط سوچنا یا غلط رنگ دینا، غلط راہ پرچلنا نا صرف ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ اسلام کی رو سے بھی یہ جائز نہیں حرام ہے

جیسا کہ جہاد کے نام پر ہمارے ملک میں بم دھماکہ ہوتا ہے یاخوکش حملہ یہ ناقابل معافی،ناقابل برداشت اورناقابل قبول عمل ہے اپنے ہی ملک میں اپنی ہی قوم کواپنے ہی لوگوں کواس جیسی مذموم حرکات کے ذریعہ سے ٹارگٹ کرنا، نشانہ بنانا اپنی ہی دھرتی سے بغاوت ناجائز و حرام ھے ایسے خودکشی ہو یا خودکش دونوں طریقے غلط و ناجائز ہیں معصوم اور بیگناہ لوگوں کواس غلط طریقہ سے مارنے والا قاتل کہلوائے گا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہوگا، ظالم کہلوائے گا اسلام کا ایسے شخص سے کوئی تعلق نہیں

شہداء کی اقسام میں بہت سارے لوگ داخل ہیں لیکن اصل قتال فی سبیل اللہ کے علاوہ باقی سب پر دنیاوی احکام تولاگو ہوں گئے مگراجروثواب میں شہداء کی صف میں شامل ہوں گئے شہداء کی چالیس سے زائد قسمیں بیان کی گئی ہیں لیکن حکم کے اعتبارسے شہیدکی دوقسمیں ہیں حقیقی اورحکمی حقیقی شہید وہ کہلواتاہے جو میدان جنگ میں قتال فی سبیل اللہ میں اپنی جان کا نذرانہ اللہ کے حضور پیش کردے اس پرشہیدکے احکام لاگو ہوتے ہیں اس کوغسل کفن نہیں بلکہ انہیں کپڑوں میں جنازہ پڑھ کردفن کیاجاتاہے حکمی شہید وہ ہے جس پردنیاوی احکام لاگو ہوں جیسا کہ کوئی شخص ناحق قتل ہوگیا،کوئی شخص ڈوب کریا پھرجل کرجان کی بازی ہارجائے،کسی کوآسمانی آفت میں موت آجائے،کسی شخص کوہیضہ، طاعون، وغیرہ کی وجہ سے موت آجائے کوئی عورت ولادت کے دوران، یا کسی کوسفر کی حالت میں موت واقع ہوجائے ایسا شخص شہید توکہلوائے گا مگر اس پر حقیقی شہیدکی طرح احکام لاگو نہیں ہوں گئے بلکہ ایسے شخص پردنیاوی احکام کے مطابق عمل کریں گئے

جیسا کہ اسے غسل کفن وغیرہ دیاجائے گا البتہ اجروثواب میں یہ شہید کی صف میں شامل ہوں گئے اگرکسی شخص کو یا کسی گھرکو اللہ تعالیٰ یہ عظیم الشان نعمت عطاء فرمادے تو اس پرسجدہ شکر بجا لاناچاہیے ناکہ زمانہ جاہلیت کی طرح واویلا کرنا،اپنے آپ کو پیٹنا،گریبان چاک کرنا، یاوہ طریقے اختیارکرناجن کااسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس نعمت پر شکراداء کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اس نعمت کواللہ سے مانگتے بھی رہنا چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں