200

استاد کا معاشرہ یا معاشرے میں استاد

مریم ناصر پنڈی پوسٹ
یوں تو میں جس مقدس پیشے سے وابستہ ہوں اس کے بارے میں زیادہ متاثر کن اقراء، اہل پیغمبرخلفا ء اور تمام عالم نے اپنا یا ہے مگر موجودہ معاشرے میں اس کا وقار اور تقدس حددرجہ پامال کیا جا رہا ہے استاد کو عزت آج کل کے معاشرے میں ریاست، معاشرہ احکام بالا کیوں کر دینے سے نالا ں ہیں جس کو اللہ تعالیٰ اور رسول مقبولؐ نے عطا کیا
یہ غم کھاتا چلا جاتا ہے مجھ کو
مجھے اس خوف سے فرصت نہیں ہے
کہیں برکت نہ اٹھ جائے وہاں سے
جہاں استاد کی عزت نہیں ہے
سب سے زیادہ مقدس اور معتبر پیشہ استاد کا تھا اور آج بڑی معذرت اور تکلیف سے یہ کہوں گی کہ سب سے کم تر اور کچھ نہ ہونے کے برابر رتبہ اور حیثیت اور کم تر پیشہ معلم کا ہے خلفاء راشدین کے جوتے وقت اقتدار کے بادشاہ کے بچے اٹھانے کو بے تاب اور سبقت، کو تیار ہیں بات یہ نہیں کہ استاد اس دور میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ بلکہ استاد کا رتبہ رب عزت سے ابد سے آخر تک بلند کر کے بھیجا ہے بے شک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ استاد کا مرتبہ، رتبہ کسی انسانی امتیاز سے بالاتر ہے کہ اسے کسی بھی جگہ رسوا کیا جائے جہالیت کے ادنیٰ درجے کی مثال ہے کہ با ادب با نصیب،بے ادب بے نصیب – حضرت علیؓ کا قول ہے جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا لہذا وہ میرا آ قا اور میں اسکا غلام ہوں اسی دور میں آقا کے پاس جو غلام ہوتا ہے۔ اس پر بڑی بھاری مشقت کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں اس دور میں استاد کی عزت، عظمت، وقار، شان و شوکت کو ہر گلی، مدر سے، سڑکوں پر بد نام اور تذلیل کیا جا رہا ہے۔ یہ ذمہ داری ہر فرد پر عائد ہوتی ہے کہ خود بھی تعلم اور معلم کا احترام کرے اور اپنی نسل میں بھی اس کو پروان چڑھائے موجودہ معاشرے میں ڈگریوں کے انبار کو بے شمارہو گئے مگر سیکھنے اور سکھا نے والوں کی قدر سے محروم۔بڑے اداروں میں Childcentired جس میں والدین اور ٹیچرامتیازی جب کہ بچہ لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے بچے کی اہمیت کو اولین فہرست میں رکھا گیا ہے جب کہ سب سے پہلے والدین جس کی اہمیت اور ادب احترام لازمی ہے‘خیر والدین بھی بس پیدا کرکے بمشکل تین سال خودسے جدا کر کے استاد کے گود میں ڈال جاتے کہ اور استادکا ادب دینا والدین کی تر بیت کا حصہ ہے مگر افسوس کہ والدین اپنے حقوق و فرائض کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے اشعار کو ہی بھول گئے ہیں استاد بننے کا شوق صرف آسان نہیں اور چند روپوں کی ضروریات کے لیے ہونا نہیں معلم ایک پیشہ ہے جس کے لیے ایک عابد سے بڑھ کر ریاضت لکھی گئی ہے جس کے لیے سمندر کے اندر مچھلیاں اور زمین اور آسمان کے اندرتمام مخلوقات دعا گو ہو تی ہے کیا کہتے ہیں استاد آپ کو چور، ڈاکو بنا رہا ہے مجھے یہ بتائیں کہ یہ بولنا بھی تو آپ کو استاد نے سیکھایا ہے کسی جاہل کے پاس تو الفاظ کو ترتیب دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرہ میں جہاں ڈاکٹر کو، وکیل کو، انجینر کو حتیٰ کہ سب شعبہ حیات زندگی میں روز معاش کی اجرت، مراعات سفری سہولیات
میسر ہے کہ اسی معاشرہ میں ایک استاد چا ہے سرکاری ہو یا پرائیویٹ اپنی گزر بسر کرنے کے لئے چند پیسوں پر اکتفا کیئے ہو ئے ہے جبکہ باقی ممالک میں استاد کو ہر جگہ عزت اور احترام اسلامی معاشرہ کے احکام کی پاسداری کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے مگر یہاں وہ اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لیے اس لیے نہیں بول رہا کہ وہ معاشرہ میں احساس،امن، سفید پوش اور دوسروں کو اپنے حقوق لینے والا سیکھتا ہے اور خود کے لیے نہیں بول پاتا مگر 3,4 کی عمر سے 22,26سال تک عموما وہ تعلیم و تربیت
کے جس فیضان سے فیض یاب ہو رہا ہے وہ استاد ہی ہے شیخ عبدالقادر جیلانی کو سیکھا یا گیا کیا ہی سبق تھا کہ” ہمیشہ سچ بولنا ” جو انھیں وقت کا قلندر بنا گیا ٓج ضرورت اس امرکی ہے کہ استاد کو معاشرہ میں بلند مقام واپس لوٹایاجائے کہ وہ بھی ریاست پاکستان کا باعزت، با حیثیت استاد قرارد یاجا ئے۔ با قی شعبہ کی طرح انھیں بھی مراعات کی فراہمی رہائش کو دیگر مراعات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے کہ اٹھیں سڑک پر نکل کر انھیں نکل کر انھیں خود کے لئے آواز اٹھانی پڑے۔باقی اساتذہ میں بھی گریڈ کی تقسیم اور امتیاز کے بغیر اور تنخواہوں کو یکساں اور موثر بنایا جائے کیونکہ استاد چاہے پر ائمری کا ہو یا یونیورسٹی کا اپنا خون و جگر، جان
و سینہ بہاتا ہے جس کو کسی بھی جگہ اور کوئی بھی پامال نہ کرے

مریم ناصر ماہر تعلیم اور سرکاری تعلیمی ادارہ کی سربراہ ہیں پنڈی پوسٹ میں دینی اور تعلیمی مسائل کے حوالے سے اپنے خیالات اظہار کرتی رہتی ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں