146

قاضیاں چوکی،کمائی کا ذریعہ

اس نفسا نفسی کے دور میں ہرایک شخص اپنے نفس کے زندان میں قید میں ہے۔کوئی یہ نہیں سوچ پا رہا کہ مفاد پرستی کا یہ زہر اب ایک مرض کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں یہاں اکثریت کا شعار جھوٹ ہے بلاملاوٹ سچ کم ہی سننے کو ملتا ہے یہاں جھوٹ زدہ سچ اور مکروفریب کی ایسی ایسی کیتھون میں الجھے لوگ موجود ہیں جوا پنے فائدے ومفاد کی خاطر کسی کی تکلیف و مصیبت کوخاطر میں نہیں لاتے ذاتی انا کی تسکین اور رنجش کے تحت کسی کی عزت کو داؤ پر لگانا بھی ہمارے معاشرے کی گند بھری ذہنیت کے لوگوں کے لیے کوئی معیوب بات نہیں معاشرے کے ناسوروں کی اسی گندگی اگلتے ذہنوں کی مکاریوں اور فریب کاریوں نے اس دھرتی کو جہنم بنا چھوڑا ہے۔ ایسے لوگ معاشرے میں پھیلے جرائم کے پنپنے کا بھی باعث بنتے ہیں کیونکہ جرائم پیشہ افراد کے پشت پناہ ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں جو انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کے لیے پس پشت مدد گار کے طور موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ جرائم کی بیخ کنی کے ذمہ دار ادارے بھی ایسے لوگوں کی کلائی کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہوتے ہیں پیسے کی ہوس انسان کو اس کے ذمہ داریوں سے غافل کردیتی ہے۔کہتے ہیں کہ جرم کے راستے خود رو پودے کی مانند ہوتے ہیں ایک قدم رکھا دوسرا خود بخود اپنی جگہ بنا لیتا ہے جرم پرور لوگ پودے کی آبیاری کا اہتمام کرتے ہیں درحقیت جرم کو پنپنے اور بڑھاوا دینے والے اصل مجرم اور سزا وار ہوتے ہیں مگر ایسے لوگ کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آتے کیونکہ جرم کے پنپنے میں وہ کردار ملوث ہوتے ہیں جو رائج قانون کے مطابق جرائم کی بیخ کنی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اپنے فرائض کی بجا آوری کے بجائے ہمارے محافظ اپنے بینک بیلنس میں اضافے کے لیے جہاں اپنے فرائض منصبی سے چشم پوشی کرتے ہیں وہیں جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔اوراس کام میں بظاہر معزز نظر آنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں

جو کبھی کبھار ہونیوالی کاروائی میں جرائم پیشہ افراد کی جان بخشی کے لیے پولیس سے جوڑ توڑ کے معاملات طے کرتے ہیں۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا جانے والا محکمہ ہے یہ ادارہ معاشرے کے گھناونے کرداروں بارے بخوبی علم رکھتا ہے انہیں علاقے کے چوروں ڈکیتوں‘ منشیات فروشوں‘چھنیا چھپٹی کے علاوہ موٹر سائیکل چوری میں ملوث گروہ بارے اطلاعات معلومات سے آگاہی ہوتی ہے علاقے کا ایس ایچ او یا چوکی انچارج چاہے تو اس کے علاقہ میں جرائم کا قلع قمع ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔کیونکہ ہوس زر کے پجاری ناجائز کاموں کے پشت پناہ پولیس کو حصہ دار بنا کر اس جانب سوچنے کی صلاحیت سے محروم کردیتے ہیں۔وجہ صرف اور صرف پیسے کی ہوس ہے۔پولیس چوکی قاضیاں کا قیام بھی بظاہر اس علاقے کے باسیوں کے جان ومال کا تحفظ ممکن بنانے کی غرض سے ہوا لیکن اس چوکی کے قائم نے علاقہ مکینوں کا سکون چھین لیا ہے۔جب سے یہ چوکی معرض وجود میں آئی ہے علاقے میں وارداتوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔حالیہ دنوں میں نئے انچارج کی تعیناتی کے بعد موٹر سائیکل چوری کی درجنوں وارداتیں رونما ہوچکی ہیں۔جبکہ مسلح افراد کی جانب سے گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل اور نقدی لوٹنے کا واقعہ بھی رپورٹ ہوا ہے۔جبکہ انچارج چوکی قاضیاں لوگوں کے لیے بیگار دینے کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اس پر بہت جلد ایک تفصیلی تحریر میں ان صاحب اور ان سے بیگار لینے والے اشخاص بارے معلومات شیئر کروں گا کہ کس طرح پولیس چوکی قاضیاں مختلف اوقات میں ملی بھگت سے غیرقانونی کام مین ملوث رہی۔ علاقے میں منشیات فروشی‘جوے کے اڈے‘ جسم فروشی کے اڈے چلائے جانے کی اطلاعات ہیں بلکہ منشیات تک اسکول کے بچوں کی رسائی کی بھی اطلاعات ہیں۔جبکہ انچارج پولیس چوکی قاضیاں فرائض کی ادائیگی کے بجائے مال بٹورنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہر گزرتا دن اس علاقے کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کررہا ہے اس چوکی کی عوام کے نزدیک تو کوئی افادیت نہیں البتہ جرائم زدہ دو نمبر افراد کے لیے یہ چوکی آؤ مل کر کھاتے ہیں والے فقرے کے عین مطابق کمائی کا ایک کھلا در ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں