تحریر چوھدری محمد اشفاق
تھانہ روات کی حدود جرائم پیشہ عناصر کے گھیرے میں
محکمہ پولیس کو حکومت جتنی مرضی سہولیات فراہم کر دے ان کی کارکردگی پھر بھی پتنگ فروشوں تک ہی محدود رہے گی معمولی درخواست بازی پر پولیس پورے پورے خاندانوں کو کئی کئی ہفتوں تک تھانے میں گھسیٹتی رہتی ہے لیکن اگر کوئی بڑی واردات ہو جائے تو پولیس اس کے پاس تھ نہیں بھٹک سکتی ہے کئی سال لگ جاتے ہیں ملزمان پکڑے نہیں جاتے ہیں اور اس طرح کے کیسز ضائع چلے جاتے ہیں اسی طرح کی صورتحال تھانہ روات میں درپیش ہے آئے روز میڈیا کے زریعے پتہ چلتا ہے کہ تھانہ روات کی حدود میں فلاں جہگہ ڈکیتی کی واردات ہو گئی ہے فلاں شخص کو پولیس کی وردی میں ملبوس ڈاکو ؤں نے لوٹ لیا ہے یہ روز روز کا تماشا بنا ہوا ہے ڈالوؤں نے شاید تھانہ روات کی حدود کو اپنے لیئے بہترین پناہ گاہ سمجھ رکھا ہے جس میں واردات کرنا شاید ان کو زیادہ آسان لگتا ہے صرف روات سے کلرسیدان روڈ کو ہی سامنے رکھ لیا جائے چند روز قبل ڈاکو عدنان ٹریڈرز مانکیالہ سے 3لاکھ روپے با آسانی چھین کر بڑی تسلی سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور تو اور ان ڈاکوؤں نے وہاں پر کھڑے چند گاہکوں کو بھی نہ چھوڑا ان سے بھی سب کچھ چھین کر لے گئے ہیں ابھی اس وارادت کو ایک دو روز ہی گزرے تھے کہ دوبارہ مانکیالہ میں ہی ایک اور ڈکیتی کی بڑی واردات ہو گئی نا معلوم ملزمان چکوال کے رہائشی جو ایک کباڑ خانے میں منشی کے طور پر کام کرتا تھا کو بڑی بے دردی کے ساتھ سر میں اینٹیں مار کر قتل کر دیا گیا ہے اور اس سے رقم بھی چھین کر لے گئے ہیں یہ کتنا بڑا المیہ ہے جو پولیس تھانہ روات کی غفلت و لاپرواہی کی واضح مثال ہے روات سے کلرسیداں روڈ تھانہ روات کی حدود میں صرف چند کلو میٹرز لگتے ہیں ان چند کلو میٹرز کے ایریا میں اگر وارداتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے تو پھر باقی پورے تھانے کی حدود کا اندازہ خود لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کیا حالات ہو ں گئے حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر روات تک سفر کے سفر میں دیکھا گیا ہے کہ تھانہ روات کی گاڑی راستے میں جو ہوٹلز بنے ہوئے ہیں ان کے باہر کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن جب اسی علاقے میں کوئی وارادت ہو جاتی ہے تو پولیس کی گاڑی ملزمان کو بروقت پکڑنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور گاڑی کہیں غا ئب ہو جاتی ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ پولیس افسران کافی دیر کے بعد جائے وارادت پر پہنچ کر تصویریں بنواتے ہیں اور وہاں پر موجود افراد کو ایک گولی دے کر روانہ ہو جاتے ہیں کہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ان کو جلد پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اس کے بعد ہوتا ہے یہ ہے کہ نہ ملزمان پکڑے جائیں نہ قانون کا کوئی کٹہرا نظر آئے گا مدعی پارٹیاں دوڑ دوڑ کر دھکے کھا کر تھک ہار کر گھر میں بیٹھ کر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں پولیس صرف غریب اور ایسے افراد جن کی کوئی سفارش نہ ہو ان کے خلاف کاروائی کرنے کیلیئے رہ گئی ہے ابھی چند روز قبل کی ہی بات ہے کہ موہڑہ بھٹاں سے ایک انتہائی غریب اور لا علم بٹھان فیملی کا آپس میں کوئی تنازعہ ہو گیا وہ پہلی بار تھانہ روات گئے وہاں پر ان کو علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آپس میں کوئی تھوڑی تو میں ہو گئی تو پولیس نے ان دونوں پارٹیوں کو تھانے میں بند کر دیا اور ان کو ضمانتیں کروانا پڑی ہیں حالانکہ پولیس کا فرض یہ بنتا تھا کہ اس لا علم فیملی کو سمجھاتی ان کی آپس میں صلح صفائی کروا دیتی لیکن پولیس کی کارکردگی صرف غریب لاچار اور غیر سفارشیوں تک محدود ہو چکی ہے طاقتور ان کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں سب سے بڑھ کر حیرت والی بات یہ ہے کہ پولیس کے اعلی حکام اپنے ماتحت تھانوں کی کارکدگی کو کس پیمانے سے ناپتے ہیں وہ کیسے ان کی کارکردگی سے مطمئن ہو جاتے ہیں پولیس اگر صحیح غلط کا نکھیڑا کرنے پر آ جائے تو بڑی سے بڑی وارادت کو سراغ صرف چند یوم میں لگا لے لیکن اس کو پتہ ہوتا ہے کہ ہم سے کونسا کسی نے پوچھنا ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعلی افسران اگر تھانوں پر اپنی تھوڑی سی بھی توجہ مرکوز کریں تو جرایم کی شرح میں یقینا کمی ممکن ہو سکتی ہے تھانہ روات ہی کو لے لیجیے وارادت پر واردات ہو گئی ہے اگر محکمہ کا کوئی افسر آ کر تھانہ روات میں بیٹھ جائے اور پولیس کو حکم دے کے میں اس وقت تک تھانے میں ہی بیٹھا رہوں گا جب تک ان وارداتوں کے ملزمان آ پلوگ ٹریس نہیں کر لیتے ہیں دیکھنا کیسے ملزمان پکڑے جاتے ہیں پولیس زمین کھود کر بھی ملزمان کو باہر نکال لائے گی لیکن تھانوں کے ایس ایچ اوز کی طرح دیگر افسران بھی ڈھنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں واردات کرنے والے جانیں اور جن کے ساتھ ہوئی ہے وہ جانیں پولیس افسران دن بدن مضبوط ہوتے جا رہے ہیں قانون کمزور ہوتا جا رہا ہے پھر پھرا کر بات یہاں پر ختم ہوتی ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کرنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے ملزمان و مدعی پارٹیاں آپس میں کوئی فیصلہ کر لیں پولیس کچھ نہیں کر سکتی ہے تھانہ روات کی کارکردگی افسران بالا کی توجہ کی منتظر ہے عوام خوف و ہراس میں مبتلا ہو چکے ہیں خاص طور پر روات کلرسیداں روڈ کے تاجر عام عوام ڈاکوؤں کے رحم و کرم کے تابع ہو چکے ہیں ان کو ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ نہ جانے کس وقت موٹر سائیکل سوار آ جائیں اور ان سے سب کچھ چھین کر لے جائیں یہ تمام معاملات پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں