146

گوجرخان کو ضلع بنانے کے مطالبے کو کفن پہنا دیا گیا

کہتے ہیں سادگی اور بے وقوفی میں بس دوچار ہاتھ کا ہی فاصلہ ہوتا ہے جب کوئی سادہ انسان اپنی ناعاقبت اندیشی کو عقلمندی کی معراج سمجھ کر لمبی چھلانگ لگاتا ہے تو حال ایسا ہوتا ہے کہ نہ صرف چال لڑکھڑا جاتی ہے بلکہ انسان حال سے بے حال ہوکر جینے پر مجبور ہوجاتا ہے ناانصافی کہیں بھی ہو دلوں میں اکثر غم وغصے کو جنم دیتی ہے اگر اس کی بروقت تلافی نہ کی جائے تو یہی جذبات انتقام میں بدل جاتے ہیں اور دُکھ دھیرے دھیرے چنگاریوں میں ڈھلنے لگتا ہے۔گوجرخان کے سیاسی وسماجی حلقے اور سول سوسائٹی ایک طویل عرصے سے گوجرخان کو ڈسٹرکٹ بنانے کا مطالبہ لے کر چل رہے ہیں اس دوران ن لیگ دوبار پنجاب میں برسراقتدار آئی۔بلکہ دس سال مسلسل برسراقتدار رہی لیکن گوجرخان کے مسلم لیگی رہنما گوجرخان کو ضلع کا درجہ نہ دلوا سکے۔اس کوتاہی میں پیپلز پارٹی کے وہ رہنما بھی شامل ہیں جو 2008 کے الیکشن میں قومی وصوبائی حلقے جیت کر اپنے اپنے ایوان میں گوجرخان کی نمائندگی کرتے رہے۔2008 کے الیکشن میں مرکز اور پنجاب میں کافی عرصہ تک مسلم لیگ اور پی پی کی اتحادی حکومت رہی اس لیے پیپلز پارٹی بھی اس کوتاہی سے دامن نہیں بچا سکتی۔2013 میں گوجرخان کی قومی اور صوبائی تینوں نشستیں ن لیگ نے جیتیں اور پنجاب کے ساتھ مرکز میں بھی حکومت بنائی اگر اس وقت ہمارے نمائندے سنجیدگی دیکھاتے اور تینوں ملکر اس ایشوز کو بھرپور طور اُٹھاتے تو شایدآج تحصیل گوجرخان ضلع گوجرخان کہلواتا۔2018 میں یہاں سے پی ٹی آئی کے دو رہنما جیت کرپنجاب اسمبلی میں گوجرخان کی نمائندگی کرتے چلے آرہے ہیں مرکز میں بھی پونے چار پی ٹی آئی کی حکومت رہی۔لیکن پچھلوں کی طرح یہ دونوں بھی مٹی کے مادھو ثابت ہوئے بلکہ انہوں نے تو گوجرخان کے ضلع بننے کے امکانات کو دفن کروا دیا۔تحصیل گوجرخان کو توڑ کر دولتالہ کو تحصیل کا درجہ دلوانا میرے نزدیک گوجرخان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ دولتالہ کو الگ کرنے کے بعد گوجرخان تحصیل کی آبادی کم ہوچکی جس کی بنیاد پر اسے ضلع کا درجہ نہ دینے کا جواز پیدا کیا گیا ہے۔پی ٹی آئی کے لوگ جسے ایک کارنامہ کے طور پیش کررہے ہیں

ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری ساجد محمود

وہ کارنامہ نہیں بلکہ گوجرخان کے عوام کے خلاف ایک سازش ہے اگر دولتالہ کو الگ تحصیل بنانے کا لولی پاپ لینے کے بجائے دونوں نمائندے ملکر گوجرخان کو ڈسٹرکٹ بنوانے کی جستجو کرتے تو کامیابی کی صورت میں دولتالہ کے ساتھ ساتھ بیول اور دیگر کچھ شہر از خود تحصیلیں بن سکتیں تھیں لیکن کیا کیا جائے کہ جولوگ خود کو ہمارارہبر کہتے ہیں ان کی سوچ بڑی ہی محدود ہے یہ لوگ اپنی ذات سے آگے سوچنا ہی نہیں چاہتے دولتالہ کا تحصیل بننا دولتالہ کی عوام کو یقیناً متاثر کرے گا لیکن ضلع پھر بھی راولپنڈی ہی ہوگا اگر گوجرخان ضلع بنتا تو اس کا فائدہ دولتالہ سمیت گوجرخان تحصیل کے دیگر علاقوں کو بھی پہنچتا۔جولوگ اس پر تالیاں پیٹ رہے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ گوجرخان کو توڑ کر اس کی آبادی کو کم کردیا گیا ہے تو کیا اب گوجرخان کو ضلع بنانے کا مطالبہ جائز قرار پا سکتا ہے نہیں قطعی نہیں۔ کسی زمانے میں غلط کے سامنے ڈٹ جانے والوں کے نام تاریخ میں درج ہوتے تھے لیکن اب غلط اور درست کے پورٹ فولیو آپس میں بدل چکے ہیں اب غلط کو غلط کہنے والوں کا ناطقہ بند کردیا جاتا ہے۔لیکن حق بات کہنا چاہیے چاہے وہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے میرے نزدیک یہ عمل غلط ہوا ہے اس سے گوجرخان کا حق سلب کیا جائے گا۔جماعتوں کی وابستگیاں اپنی جگہ لیکن اپنے حق پر ہمیں سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں