حکمران معاشی ترقی کا خواب دیکھتے ہیں خواب کی تعبیر کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں ایک ایسی ٹیم تیار کرتے ہیں جنہیں کھانا کھانے کی فرصت نہیں ملتی تاکہ عوام کھانا کھا سکیں معاشی ترقی کا روڈ میپ بنایا جاتا ہے پھر تن من دھن اس پر قربان کر دیا جاتا ہے سب سے پہلے بجٹ 2022-23پیش کیا جاتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ زندہ اور معاشی ترقی کا خواب دیکھنے والی اقوام کیلئے بجٹ کیسا ہونا چاہیے پاکستان کی نئی حکومت جیسے معاشی بحران بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے اس نے پچانوے کھرب روپے یعنی سینتالیس ارب ڈالر کا بجٹ پیش کر دیا تاہم بجٹ کا چالیس فی صد بیرونی اور اندرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے مختص کیا گیا ہے قرض اور سود کی ادائیگی تین ہزار نو سو پچاس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ان میں سے تین ہزار چار سو انتالیس ارب روپے اندرونی اور پانچ سو گیارہ ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر خرچ ہوں گے اس وفاقی بجٹ میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف پانچ فی صد جبکہ جی ڈی پی کا تخمینہ اس سال سٹرسٹھ ٹریلین روپے کے مقابلے میں اٹھتر اعشاریہ تین ٹریلین روپے ہے مالی سال 2022-23میں افراط زر کی شرح گیارہ اعشاریہ پانچ فی صد رہنے کی توقع ہے جبکہ گذشتہ مالی سال میں گیارہ اعشاریہ سات فی صد تھی ٹیکس سے جی ڈی پی کو موجودہ مالی سال میں نو اعشاریہ دو فی صد تک لے جایا جائے گا مالیاتی خسارہ مالی سال 2022میں آٹھ اعشاریہ چھ فی صد کے مقابلے میں مالی سال 2023میں چار اعشاریہ نو فی صد تک کم ہونا متوقع ہے پرائمری سرپلس مالی سال 2023میں اعشاریہ انیس فی صد متوقع ہے جبکہ مالی سال 2022میں بنیادی خسارہ دو اعشاریہ چار فی صد ہے درآمدات کا تخمینہ مالی سال 2023میں ستر بلین ڈالر بمقابلہ مالی سال 2022میں چھہتر بلین ڈالر تھا 2023میں برآمدات کا تخمینہ پنتیس بلین ڈالر بمقابلہ 2022میں اکتیس اعشاریہ تین بلین ڈالر تھا مالی سال 2022میں ترسیلات زر کاتخمینہ تینتیس اعشاریہ دو بلین ڈالر بمقابلہ اکتیس اعشاریہ ایک بلین ڈالر تھا جی ڈی پی کے ساٹھ فی صد پر قرض کی پٹرولیم سیکٹر کی واجب الادا وصولیوں کا تخمینہ دو سو چوراسی ارب روپے ہے جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے اکہتر ارب روپے مختص کئے گئے ہیں فلم سازوں‘نئے سینما گھروں‘پروڈکشن ہاؤسز کیلئے پانچ سال کی ٹیکس چھوٹ‘خوردہ فروشوں پر فکسڈ انکم اور سیلز ٹیکس بجلی کے بلوں کے ساتھ جمع کئے جائیں گے کارپوریٹس اور کاروبار کیلئے آپریشن کے پہلے سال میں سو فی صد فرسودگی ایڈجسٹمنٹ درآمدی مرحلے پر ایڈوانس انکم ٹیکس کو ایڈجسٹ کیا جائے گا پچیس ملین روپے سے زیادہ مالیت کی ایک سے زائد غیرمنقولہ جائیداد رکھنے والوں کو مارکیٹ ویلیوکے ایک فی صد پر ٹیکس عائد کیا جائے گا غیر منقولہ جائیداد پر ایک سال کی مدت پر پندرہ فی صد کیپٹل گین ٹیکس‘ہر اضافی سال کیلئے دو اعشاریہ پانچ فی صد کی کمی فائلرزپر ایڈوانس ٹیکس پراپرٹی کی خریداری پرپچھلے ایک فی صد سے بڑھا کر دو فی صد کیا جائے گا اور نان فائلرزکیلئے پانچ فی صد کیا جائے گا تین سو ملین روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد/کمپنیاں اضافی دو فی صد ٹیکس ادا کریں گے سولہ سی سی سے زیادہ گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ بنکوں پرٹیکس پچھلے انتالیس فی صد سے بڑھ کر بیالیس فی صد بشمول سپر ٹیکس ہو گیا ملک سے باہر کی جانے والی کریڈٹ /ڈیبٹ کارڈ کی ادائیگیوں پر ایک فی صد فائلرز اور دو فی صد نان فائلرز پر ٹیکس لگے گا جو پورے سال کے ٹیکس میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس نہیں ٹریکٹر‘گندم‘مکئی‘سورج مکھی‘کینولا وغیرہ پر سیلز ٹیکس کی منسوخی زرعی مشینری پرکسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے اندر چار سو اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کو معقول بنایا
گیا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فی صداور پنشن میں پانچ فی صد اضافہ ہوا ہے بجٹ 2022-23میں تعلیم کیلئے ایک سو نو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ صحت کیلئے چوبیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں بجٹ 2022-23 کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر آئی ایم ایف کی غلامی اور سودی معیشت کا سہارا لیا گیا ہے معاشی ترقی اور غربت میں خاتمہ سرے سے ہی غائب کر دیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ بجٹ بنانے والوں نے ایک خاکہ بنایا ہوا ہے کہ ہر سال اس میں صرف اعدادوشمار تبدیل کر دئے جاتے ہیں پاکستان میں تقریبا آٹھ کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جنہیں تین وقت کا کھانا میسر نہیں ہے پانچ سے سولہ سال تک کے دو کروڑ تیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں پینتیس فی صد نوجوان بیروزگار ہیں جبکہ پچھلے دو سالوں میں معاشی تنگدستی کی وجہ سے خودکشی کی شرح تین سے دس فی صد ہو گئی ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے صنعت کس طرح ترقی کرے گی برآمدات میں اضافہ کیسے ہو گا اور قرضوں اور سود کی معیشت سے کیسے چھٹکارہ ملے گا ان تمام امور کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں پیش کیا گیاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بجٹ 2022-23میں سودی معیشت کو ختم کرنے کا‘ معیشت کو بہتر کرنے‘غربت کو ختم کرنے‘روزگار میں اضافہ‘مہنگائی کو کم کرنے‘تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کیلئے کونسے اقدامات کئے جائیں گے جس کی بدولت ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوتا معیشت کو بہتر کرنے کیلئے سودی معیشت کا خاتمہ ضروری ہے جس سے پیداور کی لاگت میں کمی آئے گی اور برآمدات میں اضافہ ہو گا ملک کے مختلف حصوں میں ٹیکس فی انڈسٹریل زونز بنائے جائیں گے جہاں کم قیمتوں پر بجلی کی فراہمی‘سرمایہ کاروں کی آسانی کیلئے ایک ڈیسک پر تمام سہولیات میسر کی جائیں نئی صنعت لگنے سے روزگار بڑھے گا برآمدات میں اضافہ ہو گا ملک کی ترقی کیلئے ہر بڑے شہر میں سوفٹ ویئر پارکس کا قیام جس سے سالانہ پانچ ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے دنیا کی معیاری یونیورسٹیوں میں کوئی ایک بھی پاکستان کی یونیورسٹی نہیں ہے تعلیم کے شعبہ میں قابل ذکر بجٹ ضروری ہونا چاہیے تھا جس سے موجودہ یونیورسٹیوں کے معیار کو بہتر کرنا اور جدید نئی یونیورسٹیوں کا قیام شامل ہے جہاں سے ایسے نوجوان نکلیں گے جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرناجس سے برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے ہم گندم‘دالیں‘چینی اور سویا بین وغیرہ درآمد کرتے ہیں اچھی پلاننگ کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کو بچایا جا سکتا ہے کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھا گئی ہے کرپشن کو ختم کرنے سے سالانہ پانچ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے جنگلات میں اضافہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جس کیلئے بجٹ میں کوئی پلاننگ نہیں ہے غیر پیداوری اخراجات میں کمی کرنا ضروری ہے پاکستان میں پینتیس ہزار چھوٹی صنعتیں اور کاروبار کام کر رہے ہیں جو جی ڈی پی کا تیس فی صد ہیں انہیں اگر سہولیات مہیا کی جائیں اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے تو معاشی ترقی کی طرف ایک اہم قدم ہو گا
