205

پرائس مجستریٹ ہونے کے باوجد عوام لٹ رہے ہیں

      تحریر چوھدری محمد اشفاق
                           

کلرسیداں میں اس وقت پانچ پرائس مجستریٹ مقرر کیئے گے ہیں تحصیل کے ہر بڑے شہر میں الگ الگ پرایس مجستریٹ مقرر کیئے گے ہیں ان کو الگ الگ شہر کی زمہدارہ سونپنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ وہ اپنے اپنے دفاتر میں بھی تسلی سے کام کریں اور جن شہروں کی چیکنگ کی زمہ داری ان کے زمے ہے وہ اس کو احسن طریقے سے پورا کر سکیں لیکن اس کے باوجود پرائس مجستریٹس کی کاروائیاں اپنا اثر دکھانے میں ناکام ہیں ایک چھوٹی سی تحصیل میں پانچ پرائس مجستریٹ کی موجودگی کا مطلب تو یہ ہونا چاہیئے کے ان کی کاروائیاں اس قدر سخت اور تیز ہوں کہ ہر طرف سے ان کی باز گشت سنائی دے چھوٹے چھوٹے علاقے ان کو دیئے گے ہیں اگر ہفتے میں صرف دو دن بھی دکانوں کو چیک کر لیا جائے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں گراں فروش خوف میں مبتلا رہیں کہ پتہ نہیں کب صاحب چیک کر لے یہ بات بلکل سمجھ سے بالاتر ہے کہپرائس مجستریٹ کاروائیاں بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود دکانداروں اور گراں فروشوں میں ان کا خوف نہیں پایا جاتا ہے جرمانے ادا کرنے کے باوجود وہ صرف چند منٹوں کے بعد اپنی روزمرہ روٹین پر آ جاتے ہیں اور جو جرمانہ انہوں نے ادا کیا ہوتا ہے وہ اس کو پورا کرنے کی کوئی نئی منصوبہ کر لیتے ہیں جن چیزوں میں پٹرول ڈیزل استمعال ہوتا ہے ان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ تو معلوم ہے لیکن جن اشیاء سے اس کا کوئی تعلق نہیں ان کو مہنگا کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے جب صارف شکایت کرتے ہیں تو دکاندار جواب دیتے ہیں کہ پیٹرول ڈیزل بڑھ گیا ہے لہذا مہنگائی کرنا ہماری مجبوری ہے یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو اشیاء ان کے پاس پہلے سے بھی پڑی ہوتی ہیں ان کو بھی مہگا کر کے فروخت کرتے ہیں اس میں سرکاری انتظامیہ کی کوتاہی شامل ہے اگر پرائس مجستریٹ اپنی زمہ داریاں پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کریں تو اس چھوٹی سی تحصیل میں گراں فروشوں کو کو ضرور قابو میں لایا جا سکتا ہے یہ بات قابل افسوس ہے کہ پرائس مجستریٹ بھی موجود ہیں لیکن گراں فروش پھر بھی قابو سے باہر ہیں گرتاں فروشی عروج پر ہے عوام اس بات کا رونا کس کے سامنے روئیں انتظامی ادارے موجود پرائس مجستریٹ موجود لیکن رزلٹ ٹھیک نہیں آ رہا ہے مجستریٹ بہت بڑا نام ہے اگر وہ اپنے عہدے اپنے مقام کو سمجھیں اپنی زمہ داری کا احساس کریں تو زیادہ نہیں صرف ایک ماہ میں حالات درست ہو سکتے ہیں دکانداروں کی من مرضی کا سلسلہ دیہات تک بھی جا پہنچا ہے دودھ دہی سبزی پھل تمام اشیاء مقرر کردہ ریٹس سے زیادہ میں فروخت ہو رہی ہیں حکومت کوئی بھی ہو پرائس مجستریٹ اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے مگر ہر دور پر گراں فروش بھاری رہے ہیں ان کو کنٹرول کرنا شاید خواب خیال ہی رہے گا یہ المیہ ہے کہ قانون بھی موجود عملدرآمد کروانے والے بھی موجود لیکن عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے عوام پھر بھی خود ساختہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اس میں حکومت کا نہیں بلکہ ان افسران کا قصور ہے جن کو اس حوالے سے زمہ داری سونپی گئی ہے اگر پانچ مجستریٹ ایک ہی دن یہ نیت کر کے فیلڈ میں نکلیں کہ ہم نے اپنے افسران بالا نہیں بلکہ ایک ایسے بڑے افسر کو راضی کرنا ہے جو روز حشر ہم سے پوچھے گا کہ آپ کے ذمے غریب عوام کو ریلیف دینے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ پوری کیوں نہیں کی ہے تو یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ شام کو تمام گراں فروش توبہ توبہ کرتے نظر آئیں گے دوسرے دن وہ پھر جائیں اپنے پچھلے دن کے کام کا فیڈ بیک چیک کریں تو اس شہر کا ایک بھکاری بھی ان کو دعائیں دے گا ان کے کام کا لوگوں سے تذکرہ کرے گا ایک نیک دل انسان کو صرف غریب کی دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے یہاں پر صرف شاہ باغ شہر کے حوالے سے بات کرنا جروری سمجھتا ہوں محمد بشارت اعوان جن کو شاہ باغ کیلیئے پرائس مجستریٹ مقرر کیا گیا ہے انہوں نے صرف ایک ہفتہ کے دوران وہاں کے تین دورے کیئے ہیں ہر کریانہ سٹور، سبزی فروٹ، تمام مرغ فروشوں اور اس طرح کی دیگر شاپس پر ہر روز ریٹ لسٹیں اپ ڈیٹ ہو رہی ہیں اور ایک اہم بات کہ بشارت اعوان عام عوام کو بھی روک لیتے ہیں اور ان کو آگاہی دیتے ہیں کہ کسی دکاندار سے ریٹ لسٹ دیکھے بغیر کوئی چیز نہ خریدیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ عام صارف بھی دکاندار سے ریٹ لسٹ طلب کر رہا ہے ان کے کام میں ضرور کچھ کوتاہیاں بھی ہوں گی لیکن شاہ باغ بازار میں بہت سی بہتری دیکھنے کو مل رہی ہیں حالنکہ بشارت اعوان انتظامی آفیسر نہیں ہیں اس کے باوجود وہ اپنی بہترین حکمت عملی کے باعث حکومتی ہدایات پر تھورا بہر عمل درآمد کروا رہے ہیں باقی مجستریٹ تو انتظامی ہیں ان کی دہشت تو ویسے ھی زیادہ ہوتی ہے اگر اس طرح کی زمہ داریاں دیگر پرائس مجستریٹ بھی ادا کریں تو سو فیصد نہ سہی لیکن گراں فروشوں کو تھوڑی نکیل ضرور ڈالی جا سکتی ہے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے دوسرا ایک اہم مسئلہ بہت سارے دکاندار بھی یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کو ریٹ لسٹیں پورا پورا ہفتہ نہیں ملتی ہیں اگر کبھی کبھار مل بھی جائیں تو 12بجے تک پہنچتی ہیں اسسٹنٹ کمشنر اس بات کا بھی سختی سے نوٹس لیں مجستریٹ صاحبان عوام کی تکلیف کو سمجھیں ان کی دادرسی کریں ان کے پاس اختیارات ہیں گراں فروشوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی ڈرتے نہیں ہیں کیا عوام فی الحال یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں کہ گراں فروش زیادہ طاقت ور ہیں اور ہمارے پرائس مجستریٹ کمزور اور بے بس ہیں اس وقت کے آنے سے پہلے پرائس مجستریٹس کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ قانون کی طاقت زیادہ ہے وہ عوام کی دادرسی کیلیئے ہفتہ میں صرف دو دن ہی رکھ لیں بہت ساری بہتری ممکن ہو سکتی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں