اکرم نے سوچا بہت دن ہوئے پیر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا،اس جمعرات کو لازمی دربار پہ حاضری دوں گا۔اگلے دن تیار ہوکر جب گھر سے نکلنے لگا تو چھوٹا بیٹا بضد ہو گیا کہ ابا میں نے بھی سلام کرنے جانا ہے ۔دربار پہ سلام دعا کے بعد حجرہ سے متصل کمرہ میں پیر صاحب سے ملاقات کے لیے انتظار کرنے لگے ۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں جب پیر صاحب کا چہرہ مبارک نظر آیا تو اللہ اکبر اور سبحان اللہ کے نعرے لگنے لگے ، کوئی پاؤں چومنے لگا، کوئی ہاتھ پہ بوسہ دیکر اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کر رہا تھا۔اکرم جب پیر صاحب کی طرف بڑھنے لگا تو چھوٹے بیٹے نے باپ کو ٹوکا کہ ’’ ابا پیراں دی تے داڑھی ہی کوئی نی ‘‘ اتنے میں جو مرید (چیلہ ) ساتھ کھڑا تھا بچے کو ڈانٹا ’’ چپ کر اوئے نکیا ! پیراں نی داڑھی دل وچ ہوندی اے ‘‘۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہر جگہ پائے جاتے ہیں ، کبھی وزیر پانی و بجلی کی شکل میں ، کبھی وزیر قانون ، کبھی مرید ، کبھی چیلہ کی شکل میں ،غرضیکہ ہر شاہ کا وفادار شاہ کی غلطیوں پرایسا پردہ ڈالتا ہوا نظر آتا ہے کہ شاہ یہ کہنے پہ مجبو ر ہو جاتا ہے کہ اس کو داد دوں یا اپنی نا اہلی کا ماتم کروں ۔ پچھلے دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ مظفر گڑھ کے ایک گاؤں مبارک آباد میں پیر صاحب نے کرامت کے نام پر مرید کو ذبح کر دیا۔یہ باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں کہ ایک ایٹمی ملک اور جہاں روز ایک نیا پاکستان اور انقلاب کا نعرہ لگتا ہے وہاں کے خوش کن مناظر کو ایسے کیسے دھندلا کیا جاسکتا ہے ۔مبینہ طور پر نیاز علی کی بیٹی پر جادو اور آسیب کا سایہ تھا۔صابر علی نے جھاڑ پھونک کر کے نیاز علی کے ذہن میں اپنا یقین بٹھا لیااور صابرعلی کے ذہن میں ایڈونچر کرنے کی ترکیب سوجی ۔نیاز علی سے اچھا اور فرمانبردار مرید کہاں سے مل سکتا تھا بھلا ، فوراً فرمائش کردی کہ ایک عدد دیسی مرغا لاؤ میں نے اگلی منزل کے لیے چلا کشی کرنی ہے ۔نیاز علی بھلا پیر صاحب کی بات کیسے ٹال سکتا تھا،مرغا حاضر کیا گیا پیر صاحب نے ذبح کیا اور خون چراغ میں ڈالا چھری لہراتے ہوئے سیدھا مرید کو نیچے گرا کر چھاتی پہ پاؤں رکھ دیا ۔اس منظر کو سارے گاؤں نے براہ راست دیکھا اور گاؤں کے باسی اس بات کے منتظر تھے کہ کب پیر صاحب اپنی کرامت دکھاتے ہیں اور مردہ نیاز علی کو زندہ کرتے ہیں ۔لیکن جب پیر صاحب کو نظر آنے لگا کہ یہاں دال نہیں گلتی اور اپنی کرامت مکمل کیے بغیر جب وہاں سے بھاگنے لگے تو گاؤں والوں نے پکڑکر پولیس کے حوالے کردیا ۔
یہ اور اس طرح کے واقعات ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ بنیادی طور پر ہم بے عمل اور بے حس ہو چکے ہیں ۔ہر گلی محلہ میں جادو ٹونہ ، تعویذ گنڈہ ، بے اولادوں کو اولاد دینے والے ، بغیر پڑھے امتحان میں پاس کروانیوالے ،اپنی اپنی دکانیں کھول کر ہمارے ایمان کو چیلنج کر رہے ہیں اور نہ صرف ہم کو لادین ، ناکارہ ، نکما بلکہ بے عمل بھی بنا رہے ہیں ۔ ایسے نام نہاد پیر فقیر کا حدف خصوصاً معاشرے کے پسے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جن کو غربت ، جہالت اور اپنی سماجی محرومی کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا تو وہ نام نہاد اور مافوق الفطرت طریقوں سے خود کو معاشرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم محنت کی بجائے ابھی تک بے عملی کی چادر اوڑھے کسی معجزہ کے متنظر ہیں ۔ہمیں پورا پورا یقین ہے کہ ہمارے لیے حکمرانوں کی شکل میں آسمان سے تبدیلی اترے گی ، ہم راتوں رات امیر بن جائیں گے ، انقلاب اور تبدیلی پلک جھپکتے آجائے گی ،آج آٹا ساڑے آٹھ سو ہے تو ایکدم چار سو کا ہوجائے گا،بجلی کی یونٹ دو روپے ہوجائے گی ۔میٹرک پاس نوجوان کو سترہویں گریڈ میں
نوکری ملے گی۔بچوں کی تعلیم اور میڈیکل مفت ہوگا۔پٹرول دس روپے لیٹر ہو جائے گا۔گاؤں کے پیر صابر علی سے لیکر سیاسی و مذہبی لیڈر ہمیں ہر وقت الو بنانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں ۔ یہ صابر علی کی طرح ہمارے کسی عزیز کا جن نکال کر ہمیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں اورہم خوشی خوشی ذبح ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔کسی بھی قوم کی ترقی کا راز روپیہ پیسہ اور اسلحہ یا ایٹمی پروگرام نہیں ہوتا ،ذہنی غلامی سے آزادی ہی صیحح معنوں میں ترقی ہے ۔اگر ایٹمی پروگرام اور اسلحے کی دوڑ میں آگے نکل جانا ہی ترقی اور انقلاب ہے تو امریکہ جیسے ملک میں آج بھی بت کی پوجا نہ کی جاتی ، بھارت میں کتے سے شادی کا واقعہ سامنے نہ آتا اور بندر کی موت پہ سات سو آدمی گنجے نہ ہوتے ۔فضول رسومات اور توہمات کا مقابلہ کیے بغیر ہمارا ترقی کا خواب دیکھنا محال ہے ۔ہم معاشرے میں تبدیلی تو لانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے ایمان کی یہ حالت ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں بھی جاہل اور نفسیاتی مریضوں کی چوکھٹوں کے محتاج ہیں ۔عورتیں اولاد کی امید لیے تعویذ گنڈوں اور جادو کے جال میں پھنس چکی ہیں ۔اور پڑھے لکھے نوجوان شارٹ کٹ ترقی اور دوست کو تباہ کرنے کے لیے جادو ٹونے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ۔کوئی ٹاہلی اور برگد کے درخت پہ جھنڈا باندھ کر چلہ کشی کر رہا ہے ۔ اس کی اجازت تو ہندو مذہب میں بھی ہے پھر پاکستان آزاد کروانے اور ہجرت کی صعوبتیں اٹھانے کا کیا مقصد تھا۔اکیسویں صدی میں بھی ہمارا ایمان کمزور اور لوگ مضبوط ہیں ، جاہل اور نفسیاتی مریض قسم کے نام نہاد پیر فقیر ہمیشہ ناقص العقائد مریدوں کو پھانستے رہیں گے ۔ تبدیلی واقعی آنی چاہیے ،ایسی تبدیلی جو ہمیں جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر ہمیں ایمان کی دولت سے مالا مال کر دے ، اور یہ تبدیلی ہمیں کوئی حکمران نہیں دے سکتا ،ہمارے دل کے نہاں خانوں سے اس کی روشن کرنیں پھوٹیں گی ۔آج ہر انسان کی خواہش ہے کہ اس کا گھر اچھا ہولیکن اعتراض یہ ہے کہ حکمران محلوں میں کیوں رہتے ہیں۔ساری قوم فراڈ کررہی ہے اور چپڑاسی کو پچاس روپے دیکر پاسپورٹ آفس یا شناختی کارڈ آفس میں ہم اپنا نمبر آگے کروانا جائز سمجھتے ہیں لیکن حکمران ایسا چاہتے ہیں جو وی آئی پی پروٹوکول نہ لے اور لائن میں لگے ۔خود پنڈی جانے کے لیے لوکل گاڑی میں سفر کو توہین سمجھیں اور حکمران ایسا چاہیں جس کے پاس مہنگی اور بلٹ پروف گاڑی نہ ہو۔غرضیکہ ہم ہر لحاظ سے ڈبل سٹینڈرڈ ہو چکے ہیں ، ہم بال اچھے حجام سے بنواتے ہیں ، اپنا علاج کوالیفائیڈ اور مستند ڈاکٹر سے کرواتے ہیں، لوگ اچھی چائے کی تلاش میں پوری پنڈی گھوم آتے ہیں لیکن چائے صوفی کی ہی پیتے ہیں ، وکیل کرنے سے پہلے ہم اس کی کامیابی کا پس منظرضرور دیکھتے ہیں ، لیکن دین اور ایمان کو ہم نے اتنا بے لگام چھوڑا ہوا ہے کہ جس پاگل ، ذہنی ، اور نفسیاتی پیر کا دل کرتا ہے ہمیں ہانکتا ہوا اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے ۔تبدیلی کا عمل ہمارے اندر سے شروع ہو نا چاہیے اور ہر فرد کوچاہیے کہ تبدیلی کی ابتداء خود سے کرے ۔نہیں تو ہم خود کو جھوٹی تبدیلی اور نیاز علی کی کرامات کی طرح ذبح ہونے کے لیے تیار رکھیں ۔