زندگی جاندار اور بے جان اشیاء کے درمیان فرق کا نام ہے زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں ہر شے کو ایک نا ایک دن فنا ہونا ہے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی خشکی میں ہو یا تری میں زمین پر ہو یا کسی اور سیارے پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس لمحہ زندگی کی ابتدا ہوتی ہے اسی لمحہ وہ اپنی انتہا یا فنا کی طرف بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ بڑھنے لگتی ہے یعنی وہ اپنی ابتدا کے ساتھ ہی گھٹنا شروع ہوجاتی ہے اگر صرف انسانی زندگی کی بات کی جائے تو جیسے ہی اللہ کے حکم سے فرشتہ ماں کے پیٹ میں گوشت کے ایک لوتھڑے کے اندر روح پھونکتا ہے ہے ادھر زندگی کی ابتدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس انسان کی زندگی کا ایک لمحہ ختم ہوچکا ہوتا ہے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے تک اس بچے کی زندگی کئی ماہ تک کم ہو چکی ہوتی ہے اس کی پیدائش پر ہم خوشیاں مناتے ہیں (ہمیں خوشی منانی چاہیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اولاد جیسی نعمت سے نوازا)پھر ہر سال اس کی سالگرہ کا اہتمام بڑی دھوم دھام سے کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ ہمارے بچے کی پیدائش کی خوشی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اسے اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے تاکہ اس کی تیاری کر سکے وہ اختتام جو ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی بھی ذی روح کو فرار ممکن نہیں جلد یا بدیر اس کا اختتام لازم ہے ایک انسان اس فانی دنیا میں جتنی بھی زندگی بسر کرتا ہے کم ہو یا زیادہ وہ بے شمار نشیب و فراز سے گزر کر اپنے اختتام تک پہنچتا ہے زندگی کی یہی بھول بھلیاں نشیب و فراز اسے حقیقی زندگی کی طرف راہنمائی کرتی ہیں زندگی کے اس اتار چڑھاؤ کے اندر مختلف قسم کی بیماریاں بھی ہوتی ہیں غربت افلاس تنگدستی بھی ہو سکتی ہے دیگر کئی قسم کی پریشانیاں بھی المختصر طرح طرح کی آزمائشوں سے ایک انسان گزر کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے موجودہ دور میں انسانی زندگی میں جہاں ایسی بے شمار آسانیاں پیدا ہو چکی ہیں جو پہلے پہل بادشاہان وقت کو بھی میسر نہیں تھیں جو آج ایک عام غریب آدمی کو بھی میسر ہیں اسی طرح پہلے پہل بیماریاں بھی اتنی پیچیدہ نہیں تھی عام بیماریاں ہوا کرتی تھیں ہزاروں میں سے کسی ایک کو کوئی پیچیدہ مرض لاحق ہوجاتا تھا لیکن موجودہ دور میں ہر تیسرا شخص ایک پیچیدہ مرض میں مبتلا ہے جس کا علاج ممکن نہیں اگر علاج ممکن ہے تو صرف اور صرف ابتدائی مراحل میں یا اتنا مہنگا ہے کہ غریب و متوسط طبقے کی پہنچ سے بہت دور جیسے کینسر وغیرہ ان ہی پیچیدہ امراض میں ایک کرونا کا مرض ہے اس موذی مرض سے ساری دنیا ڈیڑھ سال سے لڑ رہی ہے یہ قابو ہی میں نہیں آ رہا یہ چین سے ظاہر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ڈیڑھ سال سے پوری دنیا عجیب کشمکش خوف میں مبتلا ہے اکثر ممالک نے اپنی سرحدوں کو سیل کیا ہوا ہے کروڑوں لوگ اس سے مر چکے ہیں اور مر رہے ہیں یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں کروڑوں لوگ ابھی تک اس سے متاثر ہو رہے ہیں یہ وائرس اتنا چالاک ہے کہ شروع میں عام بخار کی حالت میں اٹیک کرتا ہے پھر جب سمجھتا ہے کہ پورے بدن پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے تو آپکے پھیپڑوں پر حملہ آور ہو کر آپکی سانس لینے میں دشواری پیدا کرتا ہے جب انسان کی سانس اکھڑنے لگتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ آپکے خون کی گردش و روانی کو متاثر کرتا ہے اس دوران انسان کی رنگت پھٹ جاتی ہے جیسے گندم کو اچھے طریقے سے ابالیں (جسے ہم اپنی زبان میں کھونیاں کہتے ہیں) تو دانے پھٹ جاتے ہیں اور گندم کی اصل رنگت زائل ہو جاتی ہے یہ دونوں حملے اتنے اچانک اور تیزی کے ساتھ کرتا ہے کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا
اس ساری صورتحال کے بعد آدمی پر نیم بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے یہاں سے واپسی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم اور دعاؤں سے ہی ممکن ہے وگرنہ یہ وائرس لوٹنے کی مہلت نہیں دیتا یہ کام گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے یہ ساری میری آپ بیتی ہے اگر کسی کی نظر کرم اور دوستوں اہل خانہ کی دعائیں نہ ہوتیں تو شاید آپ آج یہ تحریر نہ پڑھ رہے ہوتے اس کی جگہ کوئی اور تحریر اخبار کے کسی کونے میں پڑھ چکے ہوتے جس دن وائرس نے اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا تو تقریباً چوبیس گھنٹے نیم بے ہوشی میں رہا اسی دوران ایک خواب دیکھتا ہوں کہ میں چلتے چلتے گر پڑتا ہوں ایک ڈاکٹر مجھے دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اسی وقت میرے مربی میرے مرشد میرے راہنما حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تشریف لاتے ہیں اور میرے پاس بیٹھ کر دو مرتبہ دم کرتے ہیں میں آنکھیں کھولتا ہوں مجھے اٹھا کر ایک دیوار کے ساتھ بیٹھا دیتے ہیں اس کے بعد آہستہ آہستہ افاقہ شروع ہوتا ہے میں جو آج کالم لکھ رہا ہوں یہ ان کی ہی نظر کرم اور دوستوں اور اہل خانہ کی دعاؤں کے طفیل ہے میں جیت گیا اور کرونا ہار گیا جنھوں نے ہر وقت دعاؤں میں یاد رکھا بلکہ منہاج القرآن کلر سیداں کے دوستوں نے خصوصی دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا اور میری صحت وتندرستی کے لیے اللہ کے حضور التجا کی(اسی لیے کہتے ہیں عطر فروش سے دوستی ہو تو بغیر خریدے انسان معطر رہتا ہے) میں تمام دوستوں کا بے حد مشکور ہوں جنھوں نے میرا اس متعدی بیماری میں بھی گھر کے فرد کی طرح میری ہر ضرورت کا خیال رکھا دیار غیر میں گھر کی کمی محسوس نہیں ہونے دی پڑھنے والوں سے گزارش کروں گا کرونا سے حد درجہ احتیاط کریں یہ غیر محسوس انداز میں ہلاکت تک لے جاتی ہے اللہ سب کو محفوظ رکھے آمین
318