چند روز قبل قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہوا، اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ تقریر کی ابتداء سے اختتام تک احتجاج کیا، یہ احتجاج ہماری روایات میں شامل ہو چکا ہے اور اسے فرض سمجھا جاتا ہے کہ جب بجٹ پیش ہو رہا ہوتو اپوزیشن احتجاج کرے۔ اس احتجاج میں انتہائی بیہودگی دیکھنے کو ملتی ہے اور ایسا صرف اسی سال نہیں ہوا بلکہ ہر سال ہوتا ہے۔ ان احتجاجوں میں اراکین اسمبلی بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر اسمبلی ہالوں میں بکھیر دیتے ہیں۔ایک دوسرے کے دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں، کئی بار اراکین زخمی بھی ہو جاتے ہیں جیسے اس مرتبہ ایک خاتون رکن اسمبلی زخمی ہو گئیں، جو گالی گلوچ اور بیہودہ زبان استعمال کی جاتی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ کئی بار وزیر خزانہ اور اسپیکر پر حملے کی کوشش بھی کی جاتی ہے جنہیں حکومتی اراکین اسمبلی گھیرے میں لے کر بچاتے ہیں۔ کئی بارتو ایک دوسرے کو مارنے سے غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو اسمبلی ہالوں میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اسمبلی ہالوں کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ جمعہ کے روز بلوچستان میں اراکین اسمبلی نے جو کچھ کیا وہ ایک نئی رایت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے۔ پہلے ہی بری روایات کیا کم تھیں جو اسمبلیوں کو تالے لگانے کی نئی روایت کی ضرورت محسوس ہوئی۔
یہ بائیس کروڑ سے زائد عوام کی نمائندگی کے لیے اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور وہاں جا کر اس طرح نمائندگی کرتے ہیں، لوگوں کے کروڑوں ووٹوں سے اسمبلی میں جا کر ملک کا نام اس طرح روشن کرتے ہیں، یہ لوگ ملک کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں، پوری دنیا میں ملک کے بارے میں کیا تاثر جاتا ہو گا۔ اس طرح کے واقعات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدان نہیں بلکہ مفاد پرست لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جو اخلاقیات سے بالکل عاری ہوتے ہیں، تعلیم و تربیت کا نام تک نہیں جانتے، علم و ہنر کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوتے، یہ لوگ فقط پیسے اور ذاتی مفادات کی بنا پر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں جا کر اس طرح ملک و قوم کے لیے استہزاء کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین کی طرف سے پیش آتے رہتے ہیں یہ کوئی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں ہے کہ اسے کوس کر دل کی بھڑاس نکال لی جائے، تمام جماعتیں اس قسم کی حرکتیں کرتی رہی ہیں۔
ہم کسی ایک سیاسی جماعت کے مخالف نہیں‘ہر سیاسی جماعت کے اراکین ایسی حرکات میں ملوث رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابات میں ٹکٹ دیتے ہوئے تعلیم کو ترجیح نہیں دیتیں، دینداری ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی، انہیں امیدوار کی دیانتداری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، انہیں اچھے اخلاق کے مالک شخص کی ضرورت نہیں ہوتی، کوئی شخص کتنا کرپٹ ہے اس سے ہماری سیاسی جماعتوں کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، انہیں تو صرف وہ افراد چاہیئیں جو اچھی خاصی دولت رکھتے ہوں، جو انتخابات میں کامیاب ہونے کا گُر جانتے ہوں، خواہ وہ کتنے ہی کرپٹ ہوں، کتنے ہی بددیانت ہوں، کتنے ہی بد اخلاق ہوں، پرلے درجے کے جاہل ہوں بس دولت اور تعلقات ہوں تو انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ مل جاتا ہے۔
سیاسی جماعتیں تو انتخابات میں زیادہ نشستوں کی لالچ میں اپنے پرانے اور مخلص کارکنوں کو بھی نظر انداز کر دیتی ہیں اور ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جن کا ماضی میں ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہ رہا ہو بلکہ ان کی مخالفت کرتے رہے ہوں۔ جس کی وجہ سے بداخلاق
اور بددیانت لوگ کثرت سے اسمبلیوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ جنہیں نہ تو سیاست کا علم ہوتا ہے اور نہ دین کا، اخلاقیات تو ان کے قریب سے نہیں گزری ہوتیں۔ ان کی اخلاقیات دیکھنے کے لیے سالانہ پروگرام تو بجٹ کے موقع پر اسمبلیوں میں ہوتا ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر بھی ٹاک شوز میں ان کی اخلاقی حالت کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ کس طرح ٹیلیوژین پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہورہے ہوتے ہیں۔ دو، تین سیاستدان ایک ساتھ بول رہے ہوتے ہیں کوئی خاموش ہونے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے اس طرح بولنے سے کسی کی بات سمجھ نہیں آ رہی تو پھر بولنے کا کیا فائدہ ہے لیکن وہ اپنی ضد میں بولتے چلے جاتے ہیں اور اکثر انتہائی بے ہودہ الفاظ کا استعمال بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لہٰذا سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فقط دولت، تعلقات اور مفادات کی بنیاد پر ٹکٹ دینے سے گریز کریں اور صرف انہی افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ دیں جو تعلیم یافتہ ہوں، دیندار اور دیانتدار ہوں، مہذب ہوں، ان کی اخلاقی حالت بھی اچھی ہواور سیاست اور ملکی قوانین کے بارے میں جانتے ہوں اسی طرح سیاسی جماعتوں کی یہ بھی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ بجٹ کی تقریر کے دوران تحمل کا مظاہرہ کریں اور انتہائی پر امن رہیں اور خاموشی سے پوری تقریر سنیں اور عوام کو بھی آرام سے سننے دیں۔ آپ بجٹ تقریر کے دوران اہم نکات اپنے پاس نوٹ کرتے جائیں، اس کی خوبیاں اور خامیاں ذہن نشین کرتے جائیں۔ پھر بعد میں جب آپ کو تقریر کا موقع ملے تو اس وقت اس کی خوبیوں کا تذکرہ بھی کریں اور اس کی خامیوں کی نشاندہی بھی کریں بلکہ نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح کے لیے اپنی رائے بھی دیں۔ اس قسم کی روایات سے ملک و قوم کو فائدہ ہو گا۔یوں ہم خود کو دنیا کے سامنے ایک مہذب قوم کے طور پر پیش کر سکیں گے جبکہ اوپر بیان کی گئی روایات تو ایک انتہائی غیر مہذب قوم کی نشاندہی کرتی ہیں جن سے ملک و قوم کا سراسر خسارہ ہے۔
277