راولپنڈی اور اسلام آباد کے عوام کو گزشتہ کئی سالوں سے رنگ روڈ منصوبے کی خوش فہمی میں مبتلا کیے رکھا، عوام شہر کے اندر بے ہنگم ٹریفک بالخصوص ہیوی ٹریفک سے کافی تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد از جلد رنگ روڈ مکمل ہو اور ہیوی ٹریفک کا شہر میں داخلہ بند ہو جائے تاکہ شہر میں ٹریفک کی روانی بہتر ہو جائے اور بڑے بڑے ٹرکوں اور ڈمپروں سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے جو ٹریفک کی روانی کو بری طرح متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ لاپرواہی کی وجہ سے آئے روز حادثات کا سبب بھی بنتے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے تو اس منصوبے پر کچھ کام کیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے باقی کئی منصوبوں کی طرح اس اہم ترین منصوبے کو بھی پس پشت ڈال دیا اور عوام اس کی تکمیل کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
اب رنگ روڈ سکینڈل سامنے آگیا ہے جس میں بہت سے لوگوں نے اس منصوبے کے ذریعے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی کوشش کی ہے۔ جب اس کی انکوائری ہوئی تو اس میں وفاقی وزراء، مشیر، سرکاری افسران اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے ملوث نکلے۔ کچھ سوسائٹیاں تو پہلے سے موجود تھیں جن کے مالکان نے انہیں ترقی دی لیکن بہت سی سوسائٹیاں ایسی بھی تھیں جن کا پہلے وجود نہیں تھا لیکن انہوں نے فوری طور پر سوسائٹیاں لانچ کر کے اپنے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے راتوں رات این او سی بھی حاصل کر لیے اور ہزاروں کی تعداد میں فائلیں فروخت کر دیں اور اربوں روپے کا منافع حاصل کیا۔ بہت سے افسران نے ان سوسائٹیوں کو غیر قانونی فائدہ دے کر ان سے کافی مالی فوائد حاصل کیے۔
انکوائری رپورٹ میں ایک انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ پنجاب حکومت نے 2017میں بینک آف چائنہ سے 400ملین ڈالر قرض منظور کرایا جس سے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنائی جانی تھی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ منصوبہ تھی تقریباً ختم ہو گیا لیکن بعد میں اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ کر دیا گیا اور یہ منصوبہ 40کی بجائے 66کلومیٹر کا ہو گیا۔ اس کی طوالت کا مقصد بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانا تھا اور ان سوسائٹیوں کے ذریعے ہمارے سیاستدانوں اور سرکاری افسران کو فائدہ پہنچنا تھا۔ جن لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا انہوں نے اس کا جواز یہ نکالا کہ حکومت جو بینک آف چائنہ سے ملکی قرض لے رہی ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے خود ہی اس منصوبے کو مکمل کریں گے اور بعد میں ٹول ٹیکس کے ذریعے ا س رقم کو واپس لے لیں گے۔
یہ یقینا ایک بہترین منصوبہ تھا کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے منصوبے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، جیسے یہاں صرف چالیس کلومیٹر کا ایک روڈ بنانا تھا اس کے لیے بھی حکومت کو قرض لینا پڑا یعنی حکومت کے خزانے میں اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ محض چالیس کلومیٹر طویل ایک روڈ بنا سکے۔ عوام پر ٹیکسوں کااتنا بوجھ لاد اہوا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے لیکن ملکی خزانہ بھرنے کا نام نہیں لیتا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہیں جن کے پیٹ اور بینک اکاؤنٹس نہیں بھرتے۔ تو ملکی خزانہ کیسے بھرے؟ ہر وقت حکومت کا یہی رونا ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ جیسے جیسے ٹیکسوں میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے ہی حکومت کا رونا بھی بڑھ رہا ہے۔ پھر حکومت کو چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے لیے قرض لینے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا جا رہا
ہے۔ جس کی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
تو ایسی صورتحال میں یہ طریقہ سب سے بہترین تھا کہ روڈ اگر تھوڑا سا طویل ہو جاتا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی ہاں اس کا خرچ ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر ڈال دیا جاتا کہ جو سوسائٹیاں اس سے فائدہ اٹھائیں گی وہ اس کا خرچ بھی اٹھائیں گی کہ ہر سوسائٹی اس پر خرچہ کرتی اور فائدہ اٹھاتی۔ اس کا یہ فائدہ ہوتا کہ حکومت کو قرض نہ لینا پڑتا اورہاؤسنگ سوسائٹیوں کو چونکہ اس روڈ کی وجہ سے اربوں روپے کا فائدہ نظر آتا تو وہ اس کے لیے بخوشی تیار ہو جاتیں۔ لیکن اگر یہ سب حکومت کی نگرانی میں ہوتا تو تب اس کا فائدہ بھی ہوتا۔ اس طرح چوری چھپے جیسے اب ہوا ایسے کرنا تو فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ حکومت خود ان سوسائٹیوں کی نگرانی کرتی ان کی زمینوں کا اندازہ لگا کر ان ایک مقررہ مقدار میں فائلیں فروخت کرنے کی اجازت دیتی، ان کے کام کی نگرانی کرتی۔ اگر یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوتا تو اس کا فائدہ ہونا تھا لیکن چونکہ اس کے پیچھے بہت سے کرپٹ عناصر بھی چھپے ہوئے تھے جو اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو لوٹا جس کی وجہ سے یہ ایک نفع بخش منصوبہ سکینڈل میں بدل گیا
اس کمیٹی کی رپورٹ میں جن افسران یا وزراء کے نام آرہے ہیں ان سے سختی سے تفتیش کی جائے۔ ان کا اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ اس کے روٹ پر ہمارے رشتہ داروں کی زمینیں ہیں لیکن ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے یا ہمارے کسی رشتہ دار کی زمین ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات تو پکی ہے کہ جب بھی ایسا کوئی سکینڈل آتا ہے تو ان کا کہیں نا کہیں سے تو اس کے ساتھ تعلق نکل ہی آتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رشتہ داروں کی زمینیں نہ ہوں لیکن یہ براہ راست سوسائٹیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ بہرحال کچھ بھی ہو اس کی سختی سے چھان بین ہونی چاہیے اور اس میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کو شفاف طریقے سے جاری بھی رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ انکوائریاں کرتے کرتے پھر کئی سال تک اس منصوبے کو لٹکا دیا جائے بلکہ اس کی جلد تکمیل کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں سزا کے طور پر ان پراور بالخصوص جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں ان پر بھی اس کی تکمیل کا خرچ ڈال دینا چاہیے۔
![رنگ روڈسکینڈل، منصوبہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا رنگ روڈسکینڈل، منصوبہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا](https://pindipost.pk/wp-content/uploads/2021/03/Zia-ul-Rahman-logo.jpg)