اولاد کی تربیت کیسے کریں 281

اولاد کی تربیت کیسے کریں

بچے کسی بھی قوم یا معاشرے کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، اگر ان کی اچھی تربیت کی جائے تو مستقبل میں ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے لیکن اگر ان کی اچھی تربیت کی طرف توجہ نہ دی جائے تو اچھے معاشرے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ بچوں کی اچھی تربیت کی جائے تو بچے نعمت ثابت ہوتے ہیں اور اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہوئی ہو تو یہی بچے وبال بن جاتے ہیں۔ اچھی اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہوتی ہے اور پورے معاشرے کے لیے باعث رحمت ہےہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اچھی ہو، ہر شخص یہ تمنا رکھتا ہے کہ اس کی اولاد نیک ہولیکن یہ صرف تمنا اور خواہش سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔ ان عملی اقدامات میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ والدین خود نیک بنیں۔ والدین اگر خود نیک کام نہیں کرتے تو وہ اولاد سے کیسے توقع رکھتے ہیں؟ یا اولاد کو نیک کام کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ بچے وہ نہیں کرتے جو آپ کہتے ہیں بلکہ بچے وہ کرتے ہیں جو آپ خود کرتے ہیں۔ اگر والد نماز نہیں پڑھتا تو وہ بیٹے کو کیسے نماز کی تلقین کرے گا؟ اگر کبھی کر بھی لے تو بچے پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ وہ اپنے والد کا طرز عمل اس کے خلاف دیکھ رہا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ نمازی بنے تو پہلے آپ خود نمازی بنیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کابچہ آپ کا خدمت گزار اور فرمانبردار بنے تو پہلے آپ خود اپنے بچوں کے سامنے اپنے والدین کی خدمت کریں، کیونکہ بچے نصیحتوں سے زیادہ عمل اور مشق سے سیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نیک اور صالح بنیں لیکن خود ہم گھر میں ٹیلیوژن کے سامنے سے نہیں اٹھتے ہر وقت فلمیں اور گانے دیکھتے اور سنتے ہیں، میں نے ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جن میں چوبیس گھنٹے ٹی وی چلتا ہے اور ہر وقت اس پر فلمیں اور ڈرامے لگے رہتے ہیں، میاں، بیوی، بیٹے اور بیٹیاں سبھی مل کر دیکھتے ہیں۔ ان میں کیسے کیسے مناظر ہوتے ہیں، فلموں ڈراموں میں تو پیار، محبت اور بوس و کنار عام ہے، نہ جانے یہ لوگ کیسے اکٹھے بیٹھ کر یہ سب دیکھ لیتے ہیں؟ پھر ایسے گھرانوں میں پرورش پانے والے بچوں سے کیسے حیادار ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے جبکہ بے حیائی کا درس روزانہ ٹی وی کے ذریعے انہیں ہم خود دے رہے ہیں۔ بچے ٹی وی سے برائی کے سوا کچھ نہیں سیکھتے، اگر بچے سیکھنے والے ہوں تو ان کے لیے کتابیں بھی کافی ہوتی ہیں اور اگر نہ سیکھنے والے ہوں تو انہیں ٹی وی تو کیا مہنگے ترین لیپ ٹاپ تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ فراہم کر دیں وہ نہیں سیکھیں گے بلکہ مزید خراب ہو جائیں گے۔موجودہ دور میں بھی ہم نے ایسے بہت سے پڑھے لکھے گھرانے دیکھے ہیں جن میں ٹیلیویژن نہیں ہے۔ راقم الحروف کے گھر میں الحمدللہ بچپن سے اب تک ٹیلیویژن نہیں آیا اور اللہ آئندہ بھی محفوظ رکھے۔ لیکن ہم تمام بہن بھائی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور مزید کر بھی رہے ہیں کبھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹیلیویژن کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہ سب شیطانی وساوس ہیں کہ ہم ٹی وی کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں اس سے کبھی علم میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ جو کچھ کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے وہ بھی ذہن سے نکل جاتا ہے اور اس کی وجہ سے بچوں کی کتب سے دوری بھی پیدا ہو رہی ہے۔ لہٰذا اگر بچوں کی اچھی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ٹی وی کو گھر سے نکالیں اور خود بھی فلموں، گانوں وغیرہ سے توبہ کریں۔ تبھی آپ کے بچے اس سے بچ سکیں گےبچوں کی اچھی تربیت کے لیے گھر کا ماحول اچھا اور پاکیزہ بنائیں۔ گھر میں تلاوت اور ذکر و اذکار کا اہتمام کریں، بچوں کو صحابہ کرام اور بزرگان دین کے واقعات سنائیں۔ مرد حضرات مساجد کے ساتھ ساتھ گھروں میں بھی (سنت اور نفل) نمازوں کا اہتمام کریں اور خواتین تو پوری نماز گھر میں بچوں کے سامنے ادا کریں۔ بچوں پر ان سب اعمال کا بہت اثر ہوتا ہے اور وہ وعظ و نصیحت سے زیادہ والدین کے طرز عمل سے سیکھتے ہیں۔ والدین کے اعمال جیسے ہوں بچے اسی راستے پر چلتے ہیں اس کے علاوہ بچوں کی دینی تعلیم کا خصوصی اہتمام کریں۔ دنیاوی تعلیم ضرور دلائیں بلکہ اچھے اداروں میں دنیاوی تعلیم دلائیں لیکن کسی نہ کسی درجے میں اتنا دینی علم سکھا دیں کہ انہیں معلوم ہو کہ ہم نے جو عمل کرنا ہے اس میں اسلام کی کیا ہدایات ہیں؟ مکمل عالم بن جائیں تو بہت اچھی بات ہے اگر اتنا نہیں کر سکتے تو مختصر کورسز ہی کرادیں جن میں تفسیر قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم شامل ہو۔ اس سے آپ نے جو اچھی تربیت کی ہو گی اس میں نکھار آئے گا اور ان میں نیک اعمال کی طرف رغبت اور شوق پیدا ہوگا۔ زندگی کو دینی احکامات کے مطابق گزارنے کا سلیقہ معلوم ہو گا، تمام مسلمان اگر اس بات کا اہتمام کریں تو معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں