یاسر یٰسین/پنڈی پوسٹ
رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی ہمارے چہرے پھول کی طرح کھل اٹھتے ہیں اور دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے لیکن افسوس کہ یہ خوشی ہمیں رمضان المبارک کے مہینے کی نہیں ہوتی بلکہ اس مہینے میں زیادہ منافع کمانے کی ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا رواج پیدا ہو گیا ہے کہ یہاں رمضان المبارک میں روز مرہ ضرورت اشیاءمیں زائد منافع کمانا نیکی کا کام سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ رمضان المبارک ہمیں اس چیز کا درس دیتا ہے کہ ہم روز مرہ ضروریات اشیاءمیں پہلے کی نسبت کم قیمت میں فروخت کریں تا کہ ہر تمام غریب لوگ ضرورت اشیاءکی چیز یں خرید سکےں جو کہ عام دنوں میں نہیں خرید سکتے لیکن ہم لوگ رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل ہی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کر دیتے ہیں کہ ہر چیز غریب لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے ۔جبکہ رمضان المبارک کے روزے جہاں ہرمسلمان کے لئے بے پناہ ثواب کاباعث بنتے ہیں وہی روزے میں ایک سبق بھی چھپاہواہے۔ روزہ صرف کھاناپیناچھوڑنے کانام نہیں بلکہ اس کے اور تقاضے بھی ہیں۔ روزے سے ہمیں بھوک محسوس ہوتی ہے جس سے معاشرے کے ایسے لوگوں سے ہمددری پیدا ہوتی ہے جن کے پاس کھانے کوکچھ نہیں، پیاس لگتی ہے توان لوگوں کے بارے میں خیال آتاہے جنہیں پینے کاصاف پانی میسرنہیں عید پر اپنے اور بچوں کے لئے جب ہم نئے کپڑے بنواتے ہیں تو ان محروموںکاخیال آتاہے جو اپنے اور اپنے بچوں کے لئے نئے کپڑے بنوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہر مسلمان روزے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نماز بھی قائم کرنے کی کوشش میں ہے اور اپنے گناہوں کی بخشش کروانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر کے اپنے آپ کو پکا اور سچا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کسی غریب کے بارے میں نہیں سوچتا اورنہ ہی یہ سوچتا کہ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات نے منع فرمایا وہی عمل کر کے اس کے حضور جھکتے ہوئے ذرا سا خوف ہمارے دل میں نہیں پیدا ہوتا ۔ہمارے نبی کریم کی تعلیم یہ ہے کہ ہم غریبوں کا خیال رکھیں ،بھوکے کو کھانا کھلائیں لیکن ہم غریبوں کی گردنیں کاٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ایک اور المیہ ہے کہ ہم لوگ سحری اور افطاری کے وقت اپنے دستر خوان سجا کر سیلفیاں سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے پڑوس میں کسی کے پاس افطاری کیلئے کھجور تک موجود نہ ہو اور ہم فروٹ سے بھرے دستر خوان سیلفیوں کی نظر کر دیتے ہیں ان غریب لوگوں پر کیا بیتتی ہو گی اس بارے میں ہم نہیں سوچتے ؟ہم لوگ بس یہی کہتے ہیں کہ ہم زکوٰة و فطر دے کر آزاد ہو جائیں گے اور زیادہ تر لوگ زکوٰة اور فطر دینے کیلئے عید کا انتظار کرتے ہیں لیکن زکوٰة اور فطر بھی ہم کو چاہیے کے رمضان کے شروع میں ہی ادا کریں تا کہ وہ تمام غریب اور مستحق لوگ بھی اس بابرکت مہینہ کو با آسانی گزار سکیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے ،ایک اور خاص بات ہے جو میں کہنا ضروری سمجھوں گا کہ کسی بھی غریب اور مستحق کی مدد راشن یا،پیسے یا کسی بھی طرح کی جائے تو دیتے وقت فوٹو سیشن کر کے اس کی تشہیر نہ کریں ایسا کرنے سے آپ حق دار اور سفید پوش لوگوں کی عزت نفس مجروح کر دیتے ہیں رمضان کے علاوہ بھی ہمیں عام دنوں میں بھی غریب لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ہر صاحب حیثیت شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد ،گلی محلے میں کسی ایسے غریب کی مدد کرے جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اگر ہم لوگ دکھلاوے کے بجائے ثواب کی نیت سے ایک دوسرے کی مدد اور اپنے مال و دولت پر جو زکوٰة بنتی ہے وہ اصل حق داروں میں ادا کریں تو کوئی بھی مستحق نہیں بچے گا ۔