154

استقامت

پروفیسر محمد حسین
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر مستقیم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مت خوف کھاو اور نہ غمغین ہو اور خوشخبری سنو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ہم تمہارے ساتھی ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمہارے لیے اس میں وہ ہو گا جوتم طلب کرو گے یہ مہمانی ہو گی پروردگار کی طرف سے جو بہت بخشش کرنے والا اور نہایت مہربان ہے ’’ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا قول ہے کہ استقامت قول اور فعل دونوں سے ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ کی توحید پر مستقیم الحال رہے اور کسی دوسرے اللہ کی طرف توجہ سے بھی نہ کرے اللہ کی توحید میں شک و شبہ یا شرک کا شائبہ تک نہ ہو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ آدمی سیدھے راستے یعنی ایمان و توحید اور سنت کے راستے پہ قائم رہے اور لومڑی کی طرح ادھر ادھر پھسلنے کی کوشش نہ کرے اور حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا کہ اللہ کی و حدانیت کو ماننا اور عمل میں اخلاص پیدا کرنا کہ اس میں شرک یا ریاکاری کی ملاوٹ نہ ہو اور محض اللہ کی خوشنودی مدنظر ہو استقامت ہے اسی طرح حضرت علیؓ فرماتے ہین کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کوماننا ایمان کو صحیح طریقے سے اختیار کرنا اور فرائض کو ادا کرنا استقامت میں داخل ہے حضرت سفیان بن عبداللہؓ نے نبی پاکؐ سے دریافت کیا کہ مجھے کوئی جامع نصیحت فرمائیں آپ ؐنے فرمایا اقرار کرو کہ میں اللہ کی واحدانیت کو مانتا ہوں اور پھر اس پر مستقیم رہو یعنی ڈٹ جاو اور تم فرائض حسب استطاعت ادا کرو امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ انسان کو حاصل ہونے والے کمالات دو قسم کے ہوتے ہیں پہلی قسم یہ ہے کہ یقینی علم حاصل ہو اور یہ صرف وحی الہیٰ سے حاصل ہوتا ہے باقی تمام علوم یا تو تجرباتی ہوں گے یا ظلی ،علمی لحاظ سے کامل انسان وہی ہو گا جس کو یقینی علم حاصل ہو گا انسانی کمالات کادوسراذریعہ عمل صالح ہے جو شخص اچھے اعمال انجام دے گا وہ کامل انسان سمجھا جائے گا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں یعنی استقامت کو تلاش کروکسی کو پرکھنا ہو تو اس کی کرامتیں نہ ڈھونڈتے پھرو بلکہ یہ دیکھو کہ اس کے ایمان اور نیکی کا کیا رتبہ ہے کیا یہ شخص مستقیم کے درجے میں ہے یا ڈانواں ڈول پھر رہا ہے یاد رکھو استقامت ،کرامت سے بلند چیز ہے اللہ کے مستقیم فرشتوں کے نزول سے متعلق مفسرین کی مختلف آراء ہیں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جس کسی مستقیم آدمی کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے تو اللہ کی رحمت کے فرشتے اترتے ہیں ایسے شخص سے پردہ غیب اٹھ جاتا ہے اور فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس بشارت کا تعلق قبر سے ہے یعنی ایسے شخص کو فرشتے قبر میں تسلی دیتے ہیں اور اسے انجام کی بشارت سناتے ہیں اورپھر جب مستقیم آدمی حشر کے دن قبروں سے باہر نکلیں گے تو اس وقت بھی فرشتے ان کو خوش خبری دیں گے اور کہیں گے گھبراو نہیں تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا جان کنی
کے لیے ملک الموت کے ساتھ مزید اٹھارہ فرشتے ہوتے ہیں جو مستقیم آدمی کو جنت کی بشارت سناتے ہیں جبکہ غیب کا پردہ اٹھ جاتا ہے اور یہ محض اتفاقا اللہ کو اپنا رب کہہ کر نہیں رہ گئے اور نہ اس غلطی میں مبتلا ہوئے کہ اللہ کو اپنا رب بناتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اپنا رب بناتے جائیں بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اسی پر قائم رہے اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا اور نہ اس عقیدے کو ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقید ہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ اس کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنایا اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی دوستی کی طرف توجہ نہ کی حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اللہ کی قسم استقا مت اختیارکرنے والا وہ ہے جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گیا حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں مستقیم لوگ اللہ کی عائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں کہ کسی مخصوص صورت میں ہو اور اہل ایمان انھیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں اگرچہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو اعلانیہ بھی بھیج دیتا لیکن بالعموم اہل ایمان خصوصا سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں ان کا نزول غیر محسوس طریقے سے ہوتا ہے اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجائے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت یا قبر یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوتے ہیں تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا مقصد اس زندگی میں دین حق کی سربلندی کے لیے کیے جانیں لڑنے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے تاکہ مجاہدین کو تسکین حاصل ہو اور ان کی ہمت بندھے اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ مجاہدین بے یارو مددگار نہیں ہے بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں