طالب آرائیں/کچھ چیزیں زندگی میں نہ چاہتے ہوئے بھی داخل ہوجاتی ہیں ان میں عجیب وغریب بے بس کردینے والی پراسرار طاقت بھی چھپی ہوتی ہے جو ان باتوں پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کرتی ہے زندگی نشیب وفرازسے عبارت ہے یہاں غم بھی ہے اور خوشی بھی‘مشکل بھی اور آسانی بھی‘ سکھ‘ محبتیں‘نفرتیں شب روز کی گردش سے کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔لیکن ہمارے سماجی نظام کے کئی فرسودہ رسم ورواج ایسے ہیں جو معاشرے کے لیے کسی سزا سے کم نہیں لیکن مسلسل لاگو ہیں ان میں تبدل کی کوشش ہی نہیں کی جاتی اور ہمیں معاشرتی رسم ورواج کو بے پہنچ ہوتے ہوئے بھی صرف ناک اونچی رکھنے کے لیے ان کو فالو کرنا پڑتا ہے۔جن میں کسی کے انتقال کے بعد نماز جنازہ کی ادائیگی کے فوری بعد اس گھر سے کھانا کھانے کی رسم سب سے ناپسندیدہ کہی جاسکتی ہے۔کیونکہ رسم کی ادائیگی کسی صاحب حیثیت اور کسی غریب کے فرق کو نہیں دیکھتی اور اسے ہر حال ادا کرنا معاشرتی مجبوری کہا جاسکتا ہے۔خطہ پوٹھوار کے باسی مذہب سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں یہاں صلہ رحمی اور انسان دوستی ملک کے دیگر حصوں سے بہت زیادہ ہے۔یہاں کے صاحب حیثیت لوگ اپنے اردگرد کے مستحق لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں بلکہ یہاں صدقہ جاریہ کے طور ہسپتال‘ راستے اور پل وغیرہ کی تعمیر بھی نظر آتی ہے جو کہیں کسی اور خطے میں نہیں۔لیکن میت والے گھر سے کھانا کھانے کی رسم بھی شاید صرف اسی خطے میں رائج ہے۔جو میت والا گھر اپنی مجبوریوں سے صرف نظرکر کے صرف اس لیے ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ معاشرے کی ڈیمانڈ بن چکی‘کھانا نہ دینے پر ہماری جلی کٹی باتوں اور طنزیہ گفتگو سے بچنے کے لیے اسے ہر حال میں یہ ضیافت دینا ہوتی ہے۔خیرات کا حکم ضرور ہے لیکن اس پر جو صاحب حیثیت ہو اور خیرات بھی غرباء اور مساکین کو دینے حکم ہے۔نہ کہ اپنے گاوں اور اپنے صاحب ثروت رشتے داروں کو۔ پوٹھوار کا نوجوان ہر شعبے میں نمایاں نظر آتا ہے۔کھیلوں کا میدان ہو یا صحافتی اور ادبی‘ہمارے نوجوان ہر میدان میں نمایاں مقام پر ہیں۔کافی نوجوان میت والے گھر سے کھانے کے اس رسم کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز بھی اُٹھا رہے ہیں لیکن اس کا اثر اس لیے نہیں ہورہا کہ پہل کرنے کو کوئی تیار نہیں ہمارے نوجوانوں کو اس رسم کے خاتمے کے لیے جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ہر جنازہ پر علماء حضرات جو قبل نماز چند منٹ کا وعظ کرتے ہیں انہیں اس میں اس رسم بارے عوام کو بتانا چاہیے۔کہ میت والے والے گھر کھانا کھانے سے گریز کیا جانا چاہیے ہمارے نوجوان اس پر کام کریں۔کیونکہ اس رسم کی موجودگی میں خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے گھرانے شدید کرب سے گذرتے ہیں۔قرض لیتے ہیں یا مدد دونوں صورتوں میں ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ہر جنازہ پر اس بات پر بولا جائے تو لوگوں میں اس رسم کے خاتمے کی سوچ پروان چڑھے گی۔جو معاشرے کے ان افراد کے لیے کافی سود مند ہوگی جو سانس اور جسم کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے مشکلات سہہ رہے ہیں۔
165