آصف خورشید/کلرسیداں کا پسماندہ ترین علاقہ انچھوہا بنیادی سہولیات سے تو محروم تھا ہی مگر حالیہ کچھ عرصہ میں اس پسماندگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر امن علاقہ کو چرسیوں نے اپنا مسکن بنانا شروع کر دیا ہے۔کچھ عرصہ قبل تک یہ علاقہ منشیات جیسی لعنت سے بالکل پاک تھا۔یہ علاقہ ہر قسم کے منشیات فروشوں سے مکمل محفوظ تھامگر گزشتہ چند سالوں سے نہ جانے کس کی نظر لگ گئی شام ڈھلتے ہی پگڈ نڈیوں پرآوارہ نوجوان ڈیرے ڈال دیتے ہیں جو رات گئے تک خوش گپیوں میں مشغول رہتے ہیں جن میں اکثریت دیہاڑی دار نوجوانوں کی ہے۔چند پیشہ ور منشیات فروش اپنی دیہاڑی کے چکر میں سو،دوسو کی چرس فروخت کرتے ہیں اور دن رات ان کے گاہکوں میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔اکثر خریداروں کا تعلق اسی علاقے سے ہے جبکہ چند ایک باہر سے بھی اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔جو قابل تشویش ہے۔والدین کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے اکثر علاقائی نوجوان شام ڈھلتے ہی یہاں کا رخ کر دیتے ہیں۔اکثر والدین کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ان کے بچے کس محفل میں وقت گزارتے ہیں۔علاقے کی نوجوان نسل بر ی طرح تباہ ہو رہی ہے۔منشیا ت فروش گرو ہ اپنی دیہاڑی کی چکر میں علاقے کے نوجوانوں کو ایسی لعنت میں دھکیل رہی ہے جس کو مستقبل انتہائی تباہ کن ہے۔منشیات فروش علاقے کے نوجوانوں کو اس قدر راغب کررہے ہیں کہ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ ہمارے کھیل کے میدان ویران ہو چکے ہیں۔آوارہ نوجوانوں کا راستے پر بیٹھنا معمول بن چکا ہے۔جس کی وجہ سے پورا علاقہ شدید اذیت کا شکار ہے۔والدین کو چاہئے کہ اپنی نوجوان نسل پہ خصوصی توجہ دیں۔ان کو ایسی صحبت سے دور رکھیں۔اہلیان علاقہ ان منشیات فروشوں کا تعقب کر کے ان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔تاکہ اس کا سد باب ہوسکے ورنہ اگر توجہ نہ دی گئی تو بہت جلد یہ علاقہ منشیات فروشوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔پولیس کو بھی چاہیے کہ اس علاقے کو اپنی پٹرولنگ گشت کا حصہ بنائیں تاکہ وہ عادی مجرم نہ بن جائیں۔پولیس کو چاہیے کہ مخبری کو یقینی بنا کران عناصرتک کاروائی کریں جو علاقے کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔اس سے پہلے کہ یہ نوجوان نشے کی لت میں پڑ کر عادی مجرم بن جائیں۔پولیس علاقے میں اپنا کردار اد اکرے۔
213