راجہ غلام قنبر/موت ایک ایسا حتمی امر ہے کہ جس سے کوئی بھی ذی روح مفراختیار نہیں کرسکتا۔ کوئی ماں کی کوکھ میں تخلیق مراحل میں موت کے ہم آغوش ہوجاتا ہے تو کئی برسہا برس تک زندہ رہنے کے بعد اس کو سینے سے لگاتا ہے۔ لیکن موت ان ہی ناموں کو تاریخ سے فراموش کرتی ہے کہ جن کی حیات بس زندگی گزارنے پر ہی صرف ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ جو جیتے ہیں ہی مگر ایسے کے ساتھ جینے والوں کے لئے کچھ نہ کچھ انکی بہتری کے لیئے کرتے ہیں تو انکا نام تاریخ کا حصہ بن کے امر ہوجاتا ہے۔ ایسے تاریخی افراد میں ہرنوع کے فنکار بہرصورت پائے جاتے ہیں کیونکہ فن کار کسی بھی شعبہ کا ہو وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے ساتھ بہت سوں کے لئے سکون و آسائش کا باعث بنتا ہے۔ اس کیساتھ فن کے کچھ شعبہ جات ایسے ہیں کہ جونہ صرف سکون و اطمینان کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرہ کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں ان شعبہ جات میں فن شاعری سے منسلک افراد کا کا شعبہ ایسا ہے کہ جہاں یہ قلب کے سکون کا اہتمام کرتا ہے تو دوسری جانب دو مصرعے یا ایک بند ایسا جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے کہ ممولہ کو شہباز سے ٹکرا جاتا ہے۔ شاعر اگر فطرت کی خوبصورتیاں بیان کرے تو سامع کو سکون ملتا ہے۔ شاعر اگر فطرت کے رموز دلنشیں انداز میں بیان کرے تو فلاسفہ اس پر دفتر کے دفتر تحریر کرتے ہیں۔ شاعر اگر ہجروفراق کو موضوع بنائے تو کتنوں ہی کے زخموں پہ مرہم لگتاہے بیان وصال تو دیوانہ وار رقص پر مجبور کردیتا ہے۔ شاعر جب طبقاتی تقسیم پر نظر ڈالتا ہے تو انقلاب کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔آج کی تحریر کیوجہ بھی ایک صدابہار شاعر کی یاد میں ہے ایسا شاعر جو معاشرتی جبر کا باغی بھی تھا مگر قدرت سے مایوس بھی نہیں تھا۔ جو معاشرتی تقسیم کے خلاف تو کمربستہ رہتا تھا لیکن ذاتی درد مدینہ‘نجف اور کربلا سے ہی وابستہ رکھتا تھا۔ میری مراد بابائے پوٹھوہار باواجمیل قلندر سے ہے جو آج سے ا کیاون برس قبل کلرسیداں کے شہر میں معروف شاعر‘ادیب وصحافی ماسٹر دلپذیرشاد مرحوم کے ہاں متولد ہوئے اور ایک سال قبل پچاس کی عمر میں اپنے اہل وعیال‘ شاگرداں‘وابستگان اور اہل ذوق افراد کو رنجیدہ کرکے اس جہاں سدھار گئے جہاں سے مفر کسی ذی روح کے بس میں نہیں۔ جمیل قلندر اردو‘پنجابی پوٹھوہاری شاعری میں۔ ید طولی رکھتے تھے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ گولڑہ شریف والے سیدنصیرالدین نصیرؒ نے شاعری میں شاگردی کے لیئے آنیوالوں کو جمیل قلندر مرحوم کی طرف بھیجا کہ آپ اپنے علاقہ کے جمیل قلندر کی شاگردی میں جائیں۔ جمیل قلندر سال گزشتہ کی 4نومبر کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے تھے انکی پہلی برسی کے موقع پر انکے بھائیوں حافظ ناصراور آصف محمودآصف نے شاگردان قلندر ویاران قلندر بالخصوص عکس قلندر واجد اقبال حقیر‘ ماسٹرظہیرخرم‘اظہربھٹی رہبر اور دیگر سے مل کر ایک عظیم الشان اورپوٹھوہار کا تاریخی مشاعرہ برائے برسی جمیل قلندر مرحوم بعنوان بیادمیلادالنبی ؐ منایا۔ مشاعرہ سے قبل باقاعدہ سالانہ دعا ہوئی اور بعدازاں شب بر مشاعرہ جاری رہا۔ مشاعرہ کی نقابت عکس قلندر راجہ واجد اقبال حقیر اور راقم نے کی۔ اس مشاعرہ کی صدارت علی اکبر سیف نے کی جبکہ مبصرین مشاعرہ کے فرائض پروفیسر اشفاق کلیم عباسی‘ پروفیسر جلیل اصغر اور یاسر کیانی نے ادا کیئے۔مہمانان شعراء میں زیڈ آئی اطہر پشاور‘ سیف باجوہ حافظ آباد‘استاد یوسف حسین یوسف پھالیہ‘ علی احمد گجراتی‘ارشد مخلص بھوآ احسن شامل تھے جبکہ پوٹھوہار‘کشمیر اورکوہسار سے شعراء کرام بابو جمیل احمد جمیل‘لالہ صدیق درد‘سلیم ناصر کیانی‘ظہیر افضل خرم‘قمر افضال اعوان‘راجہ محمد الیاس‘راجہ منظور منظر‘باواجان محمد‘ظہور حسین قاری‘ثاقب ساقی جہلمی‘سائیں ضیارب زین‘نوازش امبر کیانی‘جہانگیر فکر جہلمی‘اظہر محمود رہبر‘شکیل مرشد کیانی‘جاود فیاض کیانی‘آصف محمود آصف‘محسن علی محسن‘جمشید جام ستی‘ناصر نقاش عباسی‘نعمان ناصح‘انزل حسین ایاز‘افتخار مغل‘سائیں ثاقب محمود‘راجہ ناصرنصیراورماجد غازی نے اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرہ میں مہمانان خصوصی میں پیپلزپارٹی این اے ستاون کے رہنماآصف شفیق ستی‘پیر قمر زمان‘سید عامر حسین‘سید طاہر حسین‘پروفیسر آصف‘نمبردار حفیظ کیانی‘راجہ ساجد محمود‘ازرم بھٹی‘لالہ اصغر یو کے‘چوہدری عبدالرشید نوشاہی‘چوہدری نذیر‘محمد عاصم ستی‘راجہ عبدالمجید‘چوہدری عبدالمجید‘نمبردار راجہ شوکت‘مرزا رفاقت حسین‘لالہ مالک حسین‘لالہ صحبت حسین‘نوید مغل‘قاضی عرفان‘راجہ تنویر‘راجہ قمر‘عبدالرحمن بٹ شاعر سمیت پوٹھوہار‘کوہساراورکشمیر سے سینکڑوں عشاق قلندر نے مشاعرہ میں شرکت کرکے اس مشاعرہ کو پوٹھوہار کا بہترین اور کامیاب ترین مشاعرہ بنادیا۔سامعین مشاعرہ نے شعراء کے سخن پر دل کھول کے داد دی یوں مشاعرہ کو چار چاند لگ گئے۔
617