402

پی سی بھوربن میں سیرت النبی کانفرنس

شاہد جمیل منہاس/6اپریل2015ء کو پی سی بھور بن میں ایک خوبصورت اور پر نور محفل میلاد مصطفیٰ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مجھے بطور منصف مدعو کیا گیا۔میں سمجھتا ہو کہ یہ سعادت خوش قسمت حضرات کے حصے میں ہی آ سکتی ہے۔سرور کونین رحمت دو جہاں محمد مصطفی کی ولادت کے موضوع سے مختلف سکولوں اور مدارس کے طلباء نے گلہائے عقیدت جب نچھاور کرنا شروع کیے تو معصوم بچوں کی درد بھر آواز نے سامعین کے دل جیت لیے۔ ہر آنکھ خود کو مدینے کی گلیوں میں اشک بار ہوتی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔میں نے دیکھا کہ اس افرا تفری کے دور میں بھی پی سی بھور بن کے جنرل منیجر ذوالفقار احمد ملک صاحب اس محفل کے انعقاد میں روح رواں کا کردار ادا کر رہے تھے۔میرے بہت ہی محترم دوست فخر الاسلام سیفی صاحب کے والد گرامی خطیب کوہسار سیف اللہ سیفی صاحب اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔گزشتہ 24 برس سے اس مقابلہء حسن قرات اور مقابلہء نعت خوانی کا انعقاد کر کے عملی طور پر ملک ذوالفقار صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے عشق مصطفی کی شمع روشن کر رہے ہیں۔ حسن قرات اور نبی آخرالزماں پر نازل ہونے والی کتاب میں سے بیان کردہ آیات سن کر جنرل منیجر ذوالفقار ملک اور پبلک رلیشنز آفیسر میاں خالد محمود کی آنکھیں نبی کے دین کے اسلوب سے پر نم تھیں اور آنسوں تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔محترم سیف اللہ سیفی سٹیج پر تشریف فرما تھے اور آنسووں کی لڑی پروئے جا رہے تھے جو نعت رسول مقبول کا انداز اختیار کیے جا رہیں تھیں۔عشق مصطفی سے لبریز بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی بہت سی آنکھیں دریا کی روانی کی صورت محمد مجتبیٰ سے التجا کر رہی تھیں کہ اے اللہ کے آخری اور پسندیدہ ترین نبی ہمیں معاف کر دینا ہم آپ کی اطاعت گزاری اس طریقے سے نہیں کر سکے جس طرح ہم نے آپ سے اور خدائے بزرگ و بر تر سے وعدہ کیا تھا۔پی سی انتظامیہ کے چند افراد ارد گرد کھڑے تھے جن کی آنکھیں یہ بتا رہی تھیں کہ انہیں اس طرح نور کی نمی سے نم ہو کر دھلنا اچھا لگ رہا ہے۔الغرض ہر شحض خود کو وادیء نور میں روشن رہنے کی التجا کر رہا تھا۔ اس لمحے میں نے دل ہی دل میں رب کائنات سے التجا کی کہ اے کل کائنات کے خالق مجھے ان معصوم نعت خوانوں کے جوتوں کی دھول اور گرد عطا کر دے جو میری کل عمر کا سرمایہ اور کل کائنات بن جائیں۔جب یہ مقابلہ ختم ہوا تو تقسیم انعامات سے قبل سٹیج پر تشریف فرما عبدالشکور کو نعت رسول مقبول کے لیے بلایا گیا۔بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ یہ آدمی انتہائی دنیا دار ہے لیکن جب اس ہستی نے نعت کا پہلا بول زبان سے ادا کیا تو مجھے اور سامعین کو یوں لگا کہ نبی ﷺ کے زمانے کے کسی مرد قلندر اور عاشق رسول سے ملاقات ہو گئی ہو۔خوبصورت آواز جو آخر میں آنسوؤں کی لڑی بن گئی۔ہم نے دیکھا کہ عبدالشکور نے بہت مشکل سے نعت ختم کی کیونکہ آنسو دریا کی روانی اختیار کر چکے تھے۔اور ان آنسووں نے ارواح رواں کو زندگی عطا کر دی اور سامعین خود کو مدینے کی گلیوں کا مسافر محسوس کر رہے تھے۔ان کی نعت کے بعد مجھے نعت مصطفیﷺ پڑھنے کے لیے بلایا گیا تو خدا کی قسم اس وقت میں خود کو آج کے وزراء،صدور اور بادشاہوں سے بڑا محسوس کر رہا تھا کیونکہ میں اس بادشاہ کی تعریف کرنے جا رہا تھا کہ جس کے بعد فقر ختم ہے۔لیکن کل کائنات کے خزانوں کی چابیاں بھی اس محمد مصطفی کے پاس ہیں۔ میری اپنے لکھی ہوئی نعت جو میری کتاب ” مدحت شاہ امم” سے لی گئی تھی اس کے چند اشعار تحریر کر رہا ہوں،
کبھی خواب میں آئیں مکی مدنی یا در پہ بلائیں مکی مدنی
میرے دل کی حسرت پوری ہو دیدار کرائیں مکی مدنی میری نعت کے بعد جنرل منیجر ذوالفقار ملک صاحب نے خطاب کیا جس کا لب لباب عشق مصطفی اور دین محمد کا بیان تھا۔آخر میں خطیب کوہسار سیف اللہ سیفی صاحب نے خطاب کیا اور اپنی تقریر کے آغاز میں اللہ کے نبی کی نعت کے چند اشعار بیان کیے تو میں خود کو اس دور کی فضاؤں اور ہواؤں میں محسوس کرنے لگا۔اس چوبیسویں مقابلہ قرات اور نعت خوانی کے تقسیم انعامات کے لیے مجھے بھی سٹیج پر بلایا گیا اور اول انعام حاصل کرنے والے نوجوان کو جب میں نے انعام دیا تو ایک بار پھر خود کو بلندی پر پایا کیونکہ یہ دنیاوی انعام نہیں تھا بلکہ یہ تو اخری کامگاری کا صلہ تھا۔جس کا شرف نبی کی نعت کے وسیلے سے اللہ نے مجھے عطا کیا۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ذات ہمیں اس طرح کی محافل کا انعقاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اس وقت اس امت کو اس زینے کی اشد ضرورت ہے جو جنت تک جاتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں