226

اجمل صابر راجہ مسلسل نظر انداز،پارٹی کیلئے نیک شگون نہیں

بابر اورنگزیب چوہدری/پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے اس کے دیرینہ کارکن اور رہنما جب سے حکومت آئی ہے ناراض دکھائی دے رہے ہیں اسکی بنیادی وجہ انکو نظر انداز کرنا ہے جنھوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں اور مخالفوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوئے اب ان کی جگہ پیرا شوٹرز نے لی لے ہے اور ان قربانی دینے والے کارکنوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ایسی ہی صورتحال موجودہ این اے 59 جبکہ سابق این اے 52 کے سابق امیدوار جنھوں نے 2013 کے الیکشن میں حصہ لیا اور اس وقت کے ناقابل شکست شخصیت چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل پہلا الیکشن لڑا اور 50 ہزار سے زائد ووٹ لے کر سبکو حیران کر دیا جی ہاں کرنل (ر) اجمل صابر راجہ جنھوں نے تحریک انصاف کی این اے 59 میں بنیاد رکھی اور پارٹی کو اپنے پاوں پر کھڑا کیا انھوں نے 2013 کے الیکشن میں شکست کے بعد ہمت نہیں ہاری نہ ہی عوام سے دوری اختیار کی بلکہ عوام میں پہلے سے زیادہ نظر آنے لگے ہر کسی کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے جس سے دن بدن وہ این اے 59 میں تحریک انصاف کا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے جب 2018 کے الیکشن آئے تو انکو تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملا انکی جگہ غلام سرور خان کو ٹکٹ دیا گیا جنھوں نے بیک وقت دو حلقوں سے الیکشن لڑا اس وقت کرنل اجمل صابر راجہ حکومت کے اس فیصلے سے ناراض ہوئے آزاد الیکشن لڑنے کی بھی ٹھان لی مگر تحریک انصاف کے اہم رہنماوں نے ان سے ملاقات کی اور انکو سمجھایا کہ اگر غلام سرور خان دونوں حلقوں سے الیکشن جیت جاتے ہیں تو ضمنی انتخابات میں آپ کو ٹکٹ دیا جائے گا جس پر وہ ایک لولی پوپ لے کر خاموش ہوگئے الیکشن میں غلام سرور خان نے دونوں حلقوں سے کامیابی حاصل کی خاص طور پر این اے 59 میں غلام سرور خان کی کامیابی کی جہاں پر اور بہت سی وجوہات تھیں جن میں انکا ذاتی اثرورسوخ اور ووٹ بینک تھا تو وہی پر انکی جیت میں اہم کردار کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کا بھی تھا نتیجہ آنے کے بعد وہ لولی پوپ جو کرنل (ر)اجمل صابر راجہ کو دیا گیا تھا کہ وہ ضمنی انتخابات میں الیکشن لڑے گے انکو ٹکٹ دیا جائے وہ لولی پوپ ہی ثابت ہوا جب غلام سرور خان نے اپنے بیٹے کو لڑایا مگر اس اہم فیصلے پر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی اس کے بعد کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کو بالکل نظر انداز کیا گیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بن گئی لیکن انکو کوئی اہم ذمہ داری یا عہدہ نہیں دیا گیا تمام لوگوں کو کئی ناں کئی ایڈجسٹ کیا گیا کسی نہ کسی محکمے میں عہدے دے گئے کسی محکمے کا سربراہ بنایا گیا لیکن انکو ہمیشہ کی طرح یہاں بھی نظر انداز کیا گیا مگر انکی قسمت پھر سے تب جاگی جب انکو راولپنڈی سے تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا وہ دوبارہ سے پارٹی کی سطح پر نظر آنے لگے لیکن مشکلات نے انکا راستہ پھر بھی نہ چھوڑا انھوں نے صداقت عباسی کے ساتھ مل کر تنظیم سازی کی پہلے پوٹھوہار ٹاؤن کی تنظیم سازی کی گئی مگر اس تنظیم سازی کے اعلان کے ساتھ ہی غلام سرور خان گروپ کے لوگوں نے اسکو مسترد کر دیا اور اسکے خلاف بیانات دینا شروع کر د ئیے لیکن غلام سرور خان کی خاموشی سے معاملہ نے زیادہ طول نہیں پکڑا اور خاموشی ہو گئی اس کے بعد اگلے مرحلے میں یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی کی گئی اور اس بار بھی غلام سرور خان کے قریبی ساتھیوں نے اس پر بھرپور مداخلت کی اور اسکو مسترد کر دیا اور تنظیم سازی کو میرٹ پر نہ کرنے کا الزام لگایا جس پر غلام سرور خان نے بھی خاموشی توڑ دی اور کارکنوں کو ہدایت دیں کے وہ اس تنظیم سازی سے دور رہیں گو کہ جنکو عہدے دیے گئے تھے ان میں سے ماسوائے چند ایک کے کسی نے اپنا استعفیٰ نہیں دیا لیکن غلام سرور خان گروپ نے حلف برداری کی تقریب جو لیاقت باغ میں ہوئی اس میں شامل نہ ہوکر بتا دیا کہ ہم اس تنظیم سازی کو نہیں مانتے اس ساری صورتحال میں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ بار بار تنظیم سازی میں مداخلت کرنے پر پارٹی کی طرف سے کسی کو کوئی شوکاز نوٹس نیں ملا نہ ہی کسی قسم کی سرزنش کی گئی البتہ پارٹی کے لیے کام کرنے والے اور کارکنوں کو متحد رکھنے والے کرنل(ر) اجمل صابر راجہ ایک بار پھر نشانہ بنے انکو جنرل سیکرٹری تحریک انصاف عامر محمود کیانی جنھوں نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور انکو عہدے سے ڈسمس(معطل) کر دیا اور انکی طرف سے جاری کردہ بہت سے نوٹیفکیشن بھی معطل کر د ئیے جو یقینی طور پر کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکاہے اس نوٹیفکیشن کے بعد غلام سرور خان گروپ جو پہلے ہی کرنل (ر)اجمل صابر راجہ کے فیصلوں کو لے کر ناراض تھا خوشی کے شادیانے بجانے لگا جبکہ اس معاملے پر بظاہر کرنل(ر) اجمل صابر راجہ نے بھی ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اب اس ساری صورتحال میں وہ مستقبل کے بارے میں کیا لائحہ عمل طے کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن پارٹی کے لیے قربانیاں دینے اور پارٹی کو عوام میں زندہ رکھنے والے شخص کی بار بار تذلیل کرنا اور انکو نظر انداز کرنا کسی صورت بھی نیک شگون نہیں ہے عمران خان کو خود ایسی صورتحال کو دیکھنا ہوگا نہیں تو ایسی پالیسیوں اور ایسے فیصلوں سے نہ صرف پارٹی کو نقصان ہوگا بلکہ دیرینہ کارکن بھی پارٹی سے متنفر ہوجائیں گے جس کا خمیازہ آنے والے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں