ضیاء الرحمن ضیاء/دین اسلام ایسا دین ہے جس میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں اور دین پر عمل کرنے میں سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔ دین اسلام نے بنی نوع انسان کو دنیا میں رہنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھایا اور انسانی زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے رہنمائی نہ فراہم کی ہو لیکن کوئی اس سے رہنمائی لینے والا تو بنے۔ اسلام تمام طرح کی غلط اور نقصان دہ رسومات کو ختم کرتا ہے اور اس کی جگہ ایسے اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جو انسانی معاشرے کے لیے نفع بخش ہوں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ ہندوؤں کے ساتھ گزارا جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں ہندوانہ رسوم و رواج کا غلبہ نظر آتا ہے۔ بہت سی رسومات ایسی بھی ہیں جو شریعت مطہرہ کی تعلیمات کے منافی ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے ان کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے اور ان رسومات کی ادائیگی میں دین اسلام کے تمام احکامات کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے اور کسی کواحساس تک نہیں ہوتا کہ ہم کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ انہی رسومات میں سے ایک رسم جہیز کی بھی ہے۔ عرب معاشرہ جہیز کی رسم سے ناواقف تھا بلکہ وہاں جہیز کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب مسلمان ہندوستان میں آئے اور یہاں ہندوؤں سے جو رسوم و رواج سیکھے ان میں ایک جہیز کی رسم بھی مسلمانوں نے حاصل کی بلکہ مسلمانوں کے گلے پڑ گئی۔ جہیز دراصل وہ سامان یا تحائف ہوتے ہیں جو والدین بیٹی کی شادی کے موقع پر اسے دیتے ہیں۔ اب تحائف دینا تو بری بات نہیں ہے بلکہ والدین بیٹی کی محبت میں اپنی وسعت کے مطابق خوشدلی سے کچھ دیں تو یہ اچھی چیز ہے لیکن اس میں برائی اس وقت پیدا ہوئی جب اسے ایک لازمی رسم بنا لیا گیا اور اپنی وسعت سے بڑھ کر بدلی کے ساتھ مجبوراً ادا کرنے کا اہتمام ہونے لگا۔ والدین اگر بیٹی کو جہیز نہ دے سکیں تو معاشرے میں انہیں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں اور دوسری طرف جہیز نہ لانے کی وجہ سے سسرال میں اس بچی کو بھی بات بات پر رسوا کیا جاتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے والدین بچیوں کو جہیز کے بغیر رخصت کرنے سے گھبراتے ہیں اور بیٹیاں سالہا سال گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں اور ان کی شادیاں نہیں ہو پاتیں۔ یہی چیز والدین کی طرف سے دیے جانے والے اس تحفے کو معیوب اور غیر شرعی بنا دیتی ہے۔معاشرے کی اسی اخلاقی پستی کی وجہ سے شادی کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ کے افراد کے لیے تو جہیز کا انتظام کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے جبکہ مہنگائی کے عروج کے زمانہ میں جب ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور آمدن نہایت قلیل ہے تو ایسی صورت میں جہیز کے لیے لاکھوں روپے کا انتظام کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا لوگ بیٹیوں کو جہیز کا انتظام ہونے تک رخصت نہیں کرتے اور اس طرح ان کی شادیوں میں صرف اور صرف جہیز کی وجہ سے تاخیر ہو جاتی ہے جو کہ شریعت کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ علماء کرام اسے متفقہ طور پر ناجائز اور حرام قرار دیتے ہیں کہ بیٹیوں کے والدین پر جہیز کا بوجھ لاد دیا جائے او ر وہ بیٹی کے سسرال والوں کے لیے ساز و سامان لے کر جائے۔ اگر والدین بچی کو سامان اور تحائف وٖغیرہ دیتے بھی ہیں تو وہ لڑکی کی ملکیت ہوتی ہے اسے جیسے چاہے استعمال کرے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کے لیے ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکیاں اگر جہیز اور والدین کی طرف سے دیا گیا زیور لے کر چلی بھی جائیں تو سسرال والے اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اسے لڑکی کی مرضی کے بغیر استعمال کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسے فروخت بھی کر دیتے ہیں اور اس کی ساری قیمت ہڑپ کر جاتے ہیں جو سراسر ظلم اور گناہ ہے اور یہ اسی طرح ناجائز ہے جس طرح کسی اجنبی کا مال اس کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا ناجائز ہے۔لہٰذا جہیز کی لعنت زدہ رسم کو ختم کرنا معاشرے کی اہم ذمہ داری ہے اسے ختم کرنے میں وہ والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن کے بیٹوں کی شادیاں ہوں اور وہ جہیز کانہ صرف مطالبہ نہ کریں بلکہ لڑکی والوں کو جہیز دینے سے سختی سے منع کر دیں کہ ہم جہیز نہیں لیتے یوں رفتہ رفتہ یہ رسم معاشرے سے مفقود ہو جائے گی۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ معاشرے سے اس رسم کے خاتمے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ موجودہ حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کر رہی ہے جو قابل تحسین اقدام ہے لیکن اس قانون کو نافذ کرنا اور اس پر عمل درآمد کرانا قانون بنانے سے زیادہ اہم ہوتا ہے جو کہ ہمارے ملک میں اکثر نہیں ہوتا۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون بنانے کے بعد اس کا نفاذ اور اس پر عمل درآمد کے لیے بھی مؤثر اقدامات کرے تاکہ معاشرے سے اس مصیبت کو ختم کر کے غریب بچیوں کی شادیوں کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔
224