96

چوآخالصہ مسائل کے دلدل میں پھنس گیا

محمد مقصود ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ا
یک زمانہ تھا دنیا محدود تھی معمولی وسائل پر انسان گزارہ کر سکتا تھا زیادہ سے زیادہ خوراک کی حصولی کی حد تک محنت مشقت ہوتی تھی ہمارے پاس معمولی اشیا کی حصول تک مہینوں کا سفر کرتے تھے چوآ خالصہ شہر کے تاجر ایک قافلے کی شکل میں گوجر خان ،راولپنڈی جاتے تھے اور ایک فرد بیس سے پچس کلو تک سامان اٹھا کر لاتے تھے اور اسی کو فروخت کر کے گزر بسر کرتے تھے مگر وقت کے گزر جانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے لہو لعب میں اضافہ ہو تا رہا اور اکتفا کا معاملہ آئے روز ختم ہوتا گیا جانوروں سے ویکل تک دور آیا بھگی سے گاڑی تک کا سفر ہوا دنیا تیز رفتار گھوڑوں سے ہوائی جہاز تک پہنچ گئی یوں ہی ہمارے بھی پر لگ گئے ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی جدید دنیا کے ساتھ چلنے کی جسارت کی یقین جانیے اگر دنیا اتنی ترقی نہیں کرتی تو ہم کبھی بھی بجلی پانی صحت کے سہولیات تعلیم اور دیگر جدت کی کبھی بھی ڈیمانڈ نہیں کرتے لیکن بدقسمتی سے ہمارے قرب و جوار میں تمام سہولیات میسر ہیں اور ہم بنیادی ضروریات سے محروم ہیں چوآ خالصہ کی عوام کو پینے کے لیے نالہ سریں کا بدبودار پانی پائپ لائن کی صورت میں دستیاب ہے ہنگامی حالات میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت موجود نہیں ایک بی ایچ یو ہسپتال ہے جو ہزاروں شہریوں کا بوجھ اٹھائے کھڑا ہے آس پاس کے گاوں دیہات سے آنے والے مریض کی آخری آس ہے جس میں سہولیات موجود نہیں ڈاکٹر موجود ہے لیکن دوائیاں اور ڈسپنسر موجود نہیں متعلقہ ادارہ ہسپتال کی بہتری کے حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہی نہیں ہسپتال میں آنے والے مریض مایوس ہو کر واپس چلے جاتے ہیں سڑکوں کی حالت زمانہ قدیم کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی ہے رابطہ سڑکیں اور پل کھنڈرات میں شامل بیشتر دیہاتوں کا رابطہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے شہر سے منقطع ہے کلرسیداں سے دھان گلی تک ایک مرکزی سڑک شاہراہ کشمیر گزشتہ کئی سالوں سے حکمرانوں پر لعن تعن کا ذریعہ بنا ہوا ہے گرلز کالج کا خواب ان کی نظر التفات سے ہمیشہ محروم رہا اعلانات پر اعلانات کیے جارہے ہیں مگر عملی طور پر زرا بھی اقدامات نہیں ہوئے یہ تو ایسے مسائل ہیں جوناقابل برداشت ہیں کچھ ایسے بھی مسائل سرکار کی عدم توجہ سے جڑ پکڑ چکے ہیں جس سے چوآ خالصہ کی عوام کا دیرنیہ مطالبہ رہا مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ سال پورے ہوئے اس حلقہ کو وزیراعظم ملا ہر گزرتے لحمے میں اس علاقہ کی عوام کے ساتھ ناروا سلو ک ہوتا رہا سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق ایم پی اے راجہ محمد علی ترقیاتی کاموں میں مکرو فریب سے کام لیتے رہے جس پر مقامی سیاسی بالکل خاموش رہے گیس کی منطوری دی لیکن گیس نہ دی پائیوں کی ترسیل ہوئی زمین کو کھودا گیا جس سے ٹریفک کی روانی میں مشکلات پیدا کیں جو تاحال گھڑے بدستور موجود ہیں جس سے کئی مسافروں کا جانی اور مالی نقصان ہوا بی ایچ یوکو آر ایچ سی میں تبدیل کرنے کے احکامات جاری ہوئے لیکن ایم پی اے کی کرم فرمائی سے چوآ خالصہ کی بجائے تھوہا خالصہ میں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایم پی اے سفید ہاتھی کا عملی مظاہر ہ پیش کرتے رہے گیس کا منصوبہ سرد مہری اختیار کیے بیٹھا ہے جس سے محکمہ او جی ڈی سی کی کوئی دلچسپی دیکھنے کو نہیں مل رہی اور شاہراہ کشمیر پر بڑے بڑے گھڑے کھود کر خود بے لگام گھوڑا بن گیا حکمرانوں کے اس سلوک سے علاقے میں سخت قسم کی احساس محرومی پیدا ہوئی ہے نوجوان نسل تو اس قدر دلبراشتہ ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی گزشتہ الیکشن میں اس بے چینی کا اظہار ہوتا رہا جس کا الیکشن میں عوام نے احتساب کیا ایم پی اے راجہ محمد علی کے لیے ایوان میں جانے کے دروازے بند کر دیئے لیکن ایم این اے دوسروں کے حلقے میں جاکر بھیگ مانگ کر ایوان میں جا سکے یعنی ماموں کے گھر جاکر سہرا بندی کی عوام علاقہ نے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے سنئیر رہنما راجہ پرویز اشرف اور راجہ محمد صغیر کو حلقہ قانون گو چوآ سے تاریخی کامیابی ملی اس کی بنیادی وجہ بھی ان تین مسائل کا حل تھا اور حلقہ قانون گو چوآخالصہ کی عوام نے ان دونوں حکمرانوں کو جو ووٹ دیا وہ بھی اسی امید پر دیا کیونکہ ان سے علاقے میں ترقی اور خوشحالی کی واضع امید تھی مگر ان کی کامیابی کے بعد بھی چوآ خالصہ کے سلگتے مسائل وہی کے وہی ہیں کوئی ایک بھی مسلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے جس کی وجہ سے حلقہ عوام میں ان کی بہتر پوزیشن اور رائے نہیں رہی اورعوامی سوچ آنے والے وقت میں ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے چونکہ جس طرح دنیا تبدیل ہو رہی ہے اسی طرح لوگوں کی سوچ بھی تبدیل ہو رہی ہے ذات پات ،پارٹی نظریہ ،جھوٹے دعوے اور اعلانات کے نام پر دھوکہ کھانے کازمانہ ختم ہو چکا ہے اب دیکھنا ہے راجہ پرویز اشرف اور راجہ محمد صغیر کو کہ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں