شاہد جمیل منہاس/معروف ادیب اورتخلیق کارممتازمفتی اپنے ایک مضمون”رام دین“میںبیان کرتے ہیںکہ۴۳۹۱ءکے عشرے میںان کاتبادلہ گورنمنٹ سکول دھرم شالہ میں ہو گیا۔ ممتازمفتی اس سکول میںواحدمسلمان استادتھے۔ہوایوںکہ ایک دن انہوںنے اپنے ایک شاگردسے کہاکہ بیٹا!جلدی سے مجھے ایک گلاس پانی پلادو،پیاس لگی ہے۔وہ لڑکاانتہائی ادب سے ان کے پاس آکرکھڑاہوگیااوراس نے اپناسرنیچاکرلیا۔ممتازمفتی نے اس لڑکے سے کہاکہ بیٹامجھے ایک گلاس پانی لادو۔اس کے بعدوہ بولاکہ ماسٹرجی!میںآپ کوپانی نہیں پلاسکتا۔ماسٹرجی نے پوچھاکہ کیوں؟تولڑکاکہنے لگاکہ”مہاراج!میرادھرم بھرشٹ جائے گا۔“ اس واقعہ سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیںکہ ہندوو¿ںکااس طرح کاحقارت انگیزرویہ صرف ایک شاگردیاانفرادی معاملات تک محدودنہیںبلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوںتک پھیلاہواتھا۔یعنی وہ مسلمانوںسے نفرت کرتے تھے ۔ماضی کے یہ واقعات دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیںاندازہ ہوسکے کہ جس نریندرمودی کے ساتھ ایک میزپربیٹھ کرہم یاہماراکوئی بڑاکھاناکھاتاہے تویہ وہی نریندرمودی ہے کہ جس کی نسل کے پیروکاروںنے ماضی میںمسلمانوںکے ساتھ وہ ناروا رویہ اپنایا کہ جس کی مثال نہیںملتی۔آسٹریلین نژادمحمداسداپنی خودنوشت”بندہ¿ صحرائی“میںلکھتے ہیںکہ ۳۳۹۱ءمیںایم۔ اسدہمراہ اپنے ساتھیوںکے ہمراہ کوہ ہمالیہ کے دامن میںواقع جوگندرسنگھ ریلوے اسٹیشن پرپہنچے تومعلوم ہوا کہ پٹھان کوٹ جانے کے لئے دوگھنٹے بعدوالی ایک ریل گاڑی پرجاناپڑے گا۔چنانچہ اس نے سوچاکہ اتنی دیرہم قریبی بازاروںکاسروے کرلیتے ہےں۔وہ کہنے لگے کہ ہم گھوم رہے تھے کہ ہماری نظرایک دودھ والی دکان پرپڑی۔یہ منظردیکھتے ہی ہمارادل چاہاکہ دودھ پیا جائے۔ جب ہم قریب گئے تودکاندارپیالے میںایک آوارہ کتے کودودھ پلارہاتھا۔یہ منظر ہمیںبہت منفرداوراوراچھالگاکہ اللہ کی مخلوق پررحم عیاںہورہاتھا۔ہم نے اس سے پنجابی میں کہا کہ ہم نے بھی دودھ پیناہے۔اسے فوراً ً ً معلوم ہوگیاکہ ہم مسلمان ہیں۔لہٰذااس نے وہ کتے والا گلاس کھنگالااوردیوارمیںبنے ہوئے طاقچے کی طرف اشارہ کرتے کہاکہ گلاس اٹھاکرمیرے آگے لائیں،میںان میںدودھ ڈال دوں۔یہ سن کرمیںنے اپنے دوست سے حیرت انگیزاندازمیںوضاحت مانگی تواس نے بتایاکہ ہم مسلمان ہیںاوریہ لوگ نہیںچاہتے کہ اس برتن کوہاتھ تک لگائیںجس میںمسلمان کھائیںیاپئیں۔وہ کہنے لگاکہ یہ سنتے ہی میراچہرہ غصے سے سرخ ہوگیاکہ وہ کتے کوتواپنے ہاتھ سے دودھ پلارہاتھامگرایک مسلمان کواپنے ہاتھ سے ناپاک برتن تک دیناگوارہ نہیںکررہا۔میرے اس تندوتیزلہجے کودیکھ کردکاندارنے وہ گلاس اٹھالیا۔میںنے گلاس اس سے چھین لیااوراس ناپاک گلاس کولبالب دودھ سے بھرکراسے دوبارہ سارے دودھ میںڈال دیااوراس طرح سارادودھ ناپاک ہوگیا۔گلاس کودورپھینکتے ہوئے میںنے جیب سے سوروپے نکالے اوراس دکاندار کے منہ پردے مارے جوکہ اس سارے دودھ کی قیمت تھی۔اس طرح ذات پات اورپاک و ناپاک کے ہندوتصورکایہ اولین مجادلہ تھاجومیںنے کیا۔“حالات وواقعات کے پیرائے میں نچوڑیہ نکلتاہے کہ ہندوو¿ںہی کی تنگ نظری کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اورہندوایک ہزار برس تک اکٹھے رہے مگرایک قوم نہ بن سکے۔مسلمانوںنے کبھی ہندوو¿ںسے اس حد تک نفرت نہ کی کہ جتنی نفرت ہندوو¿ںنے مسلمانوںکے ساتھ روارکھی۔مسلمانوںنے اپنے مذہبی امورمیںدخل اندازی بھی برداشت نہ کی مگرایک انسان کادوسرے انسان سے جورویہ اسلام بتاتاہے اس رویہ کوہمیشہ ملحوظ خاطررکھا۔اسلام چونکہ انسانیت کے تحفظ کادرس دیتاہے نہ کہ صرف مسلمانوںکے تحفظ کا۔اس لئے ایک مسلمان ہردورمیںہندوو¿ںکے باقی معاملات میںدخل اندازی سے گریزکرتارہا۔مگریہ بات طے ہے کہ ہندوو¿ںاورمسلمانوںکے درمیان کھانے کی میزپرموجودلکیرنے آخرکار سرحدوں کے درمیان لکیرکھینچ کریہ ثابت کردیاکہ یہ دوقومیںآپس میںمل کرکبھی اپنے معاملات نہیں چلا سکتیں۔مسلمانوںکے افکاراورنظریات خداترسی پرمنحصرتھے اورہیں۔مگرہندوو¿ںکے نزدیک ایک مذہب کی آڑمیںکچھ بھی کرگزرناجائزہے۔لہٰذاتاریخ گواہ ہے کہ ہندوو¿ں نے سکھوںکے ساتھ مل کرمسلمانوںکے شیرخواربچوںکے دوٹکڑے کرتے ہوئے اقوام عالم کوباورکرادیاکہ ہندوبظاہرانسان نظرآتاہے مگردرحقیقت یہ دوٹانگوںوالاایک درندہ ہے۔ آج کشمیرکے مسلمانوںکے حالات پوری دنیاکے سامنے ہیں۔یہ وہی ہندوہے جو حاملہ مسلمان خواتین کواس بے دردی سے سزادیتاہے کہ ان کے ہونے والے بچے ان کے پیٹ میںہی دم توڑجاتے ہیں۔یہ وہی ہندوہے کہ جس نے اسلامی عمارتوںکوتہس نہس کرکے یہ ثابت کیاکہ یہ وہ درندہ ہے کہ جب تک یہ انسانی گوشت نہ کھالے تب تک اس کی حاجت روائی نہیںہوتی۔قیام پاکستان کی راہ ہموارکرنے کے لئے ہندوو¿ںکے مظالم نے اہم کرداراداکیا۔قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی جوانی کے دنوںمیںبھی ہندوو¿ںکی جارحیت ناقابل برداشت تھی۔قائداعظمؒنے اپنالڑکپن اورنوجوانی اورپھرجوانی محنت کی نذر کیوںکردی؟اس لئے کہ قائداعظمؒ کومعلوم تھاکہ اگرمحنت اورلگن سے کام کیاجائے تو کامیابی ضرورقدم چوماکرتی ہے۔قائداعظمؒنے محنت کرتے ہوئے اپنی راتوںکی نیندکی پرواہ کئے بغیراپنادن رات ایک کردیا۔قائداعظمؒنے جاگتے ہوئے قیام پاکستان کاخواب دیکھناشروع کیاعلامہ اقبالؒنے فورًایقین دہانی کروائی کہ یہ قوم الگ رہ کرہی خوش رہ سکتی ہے۔ لہٰذا علامہ اقبالؒنے اپنے خواب کوشاعری کی شکل میںعیاںکرناشروع کیا تو قائداعظمؒ نے ڈاکٹراقبالؒکی سوچ اورفکرکوعملی جامہ پہنانے کے لئے پوری قوم کی ارواح کو بیدارکرناشروع کردیا۔پھرایک وقت آیاکہ ہندوستان کے ہرمردوزن،بچے اور بوڑھے، حتّٰی کہ نوجوان نسل نے فضول کاموںکی بجائے محنت پراپنی توجہ مرکوزکرتے ہوئے قیام پاکستان اورتحریک پاکستان کے لئے قدم اٹھائے۔یہ قدم روشنی کی رفتارسے زیادہ تیزنکلے اوراللہ کی ذات نے اس قوم کے ایک قدم کے بدلے اسے کوسوںمیل کافاصلہ طے کروا کر اپنے دین کی سربلندی کے لئے راہ ہموارکرناشروع کی۔اس دورکے ناموروںکی لسٹ بہت طویل ہے،بس اتناکہوںگاکہ قائداعظمؒجیسے سپہ سالارکی زیرنگرانی ہرسپاہی سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیارتھا۔اورجب کوئی کلمہ گواپنی جان ہتھیلی پررکھ لے تو ناکامیاں کوسوں میل دوربھاگ جایاکرتی ہیںاورکامیابیاںاس قوم کامقدربن جایاکرتی ہیں۔آج تاریخ کے اوراق نے ساری دنیاکوبتادیاکہ ایک ہندوجوکسی زمانے میںاپنے مسلمان استادکوپانی تک پلاناگوارانہ کرتاتھاکہ وہ ناپاک ہوجائے گا۔اورایک ہندودکاندارجومسلمان کوکوئی چیزفروخت کرنابرداشت نہ کرتاتھا،یہ تمام رسومات اپنی موت آپ مرگئی ہیں۔آج پوری دنیا ہندو بننے پرلعنت بھیج رہی ہے کہ یہ بے گناہ مسلمانوںکی قاتل قوم ہے۔۴۱اگست،۷۴۹۱ءکامعرض وجودمیںآنے والاپاکستان کل بھی زندہ بادتھااورآج بھی زندہ بادہے۔اوروہ وقت دورنہیںکہ جب کشمیربنے گاپاکستان!انشاءاللہ!!۔ لہٰذا خوش آمدید ماہِ آزادی خوش آمدید ۴۱ اگست۔
174