پروفیسر محمد حسین
مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک افراط زر اور مہنگائی جیسے مسائل سے دو چار ہیں وطن عزیز میں بھی لوگ دن رات ہائے مہنگائی ،ہائے مہنگائی کا راگ الاپتے رہتے ہیں قیام پاکستان سے لیکر اب تک تمام حکومتیں مہنگائی کے ہمالیہ جیسے خوفناک دیو پر قابو پانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے تیار کر تی رہی ہیں لیکن نہ ماضی میں یہ دیو قابومیں آیا اور نہ ہی مستقبل میں اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ‘لوگ ساٹھ ستر سال پرانے زمانہ کو عام طور پر سستا زمانہ کہتے ہیں جب کبھی مہنگائی کی بات چلتی ہے تو لازماًسستے زمانے کا بھی ذکر کیا جاتا ہے اور بزرگ صارفین بڑے فخریہ اندا ز میں یہ بتاتے ہیں کہ یہ انیس سو چالیس کی بات ہے کیا سستازمانہ تھا گھر سے ایک روپیہ لیکر نکلتے تھے دوتین سیر گوشت خریدتے ایک سیر دیسی گھی بھی خرید لیتے دو چار سبزیاں بھی خریدتے اور ایک دو دالیں اور واپسی پر بچوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں بھی لے لیتے اور پھر بھی پورا روپیہ خرچ نہ ہوتا دوتین آنے بچ جاتے اب انیس سو اسی کی بات سنئیے وہ بھی کیا سستا زمانہ تھا گھر سے ایک سو روپے لیکر نکلتے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ایک دو دوائیاں خریدتے اور پھر بھی بیس سگریٹ والا ایک پیکٹ خرید لیتے دوسرے ایک سو روپے کے نوٹ سے ایک کلو پیاز آلو خریدتے مرغی ایک درجن انڈے خریدتے ایک بڑی ڈبل روٹی بھی لے لیتے اور پھر بھی بچوں کے لیے ٹافیاں وغیرہ خرید لیتے لیکن اب توبہ ہے توبہ بازار میں ایک ہزار روپے لیکر جائیں تو مطلوبہ مقدار میں اشیاء نہیں خرید سکتے ایک دو چیزیں لینے کے بعد پتہ چلتا ہے ہمارے پاس مزید کوئی چیز خریدنے کے لیے پیسہ نہیں بچا ہے جیب خالی ہو چکی ہے اور پھر گھر کی طرف واپسی کا ارادہ کر لیا جاتا ہے جب ہمارے ملک کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا لگ جاتی ہیں تیس اپریل 2018کو ہمارا بجٹ 2018-2019کا پیش کر دیا جس کا اطلاق یکم جولائی 2018کو ہو گا لیکن اشیاء کی قیمتیں یکم مئی 2018سے ہی بڑھنی شروع ہو گئی ہیں اور ساتھ رمضان المبارک بھی شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہر شے کی قیمت چالیس سے پچاس فیصد تک بڑھ گئی ہے غیر مسلم اقوام اپنے تہواروں کے موقع پر اشیاء سستی کر دیتی ہیں تاکہ غریب عوام بھی اشیاء خرید کر اپنے تہواروں کی خوشیوں کو دوبالا کر سکیں اور اسی طرح غیر مسلم ممالک میں جس مسلمانوں کے کوئی تہوار آتے ہیں مثلا رمضان المبارک یا عیدین تو وہ غیر مسلم اقوام مسلمانوں کے لیے اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کردیتے ہیں لیکن ہم مسلمان ہو کر بھی اپنے تہواروں کے موقع پر اشیاء کی قیمتیں جان بوجھ کر زیادہ کر دیتے ہیں اور غریب لوگ روز مرہ کی اشیا ء خریدنے سے قاصر ہو جاتے ہیں اور اس طرح اپنے تہواروں پر خوشیاں منانے سے محروم ہو جاتے ہیں اور صارفین کو یہ شکایت ہے کہ مہنگائی کے ضمن میں حکومت کچھ نہیں کرتی لہذا حکومت کو چاہیے کہ اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور اس سلسلے میں یادہانی کے طو ر پر گزارش کی جاتی ہے کہ حکومت نے مہنگائی کے ضمن میں جو بھی وعدہ کیاوہ پورا کیا صارفین کو بتانا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کے سلسلے میں صرف دو وعدے کیے تھے پہلاوعدہ یہ حکومت قیمتوں میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوکاوائی کرے گی یہ وعدہ حکومت نے پورا کر دیا کیوں کہ حکومت نے قیمتوں میں استحکام پیدا کر دیا ہے کیا قیمتیں مستحکم اور مضبوط نہیں ہوئی ہیں آخر کس چیز کی قیمت غیر مستحکم ہو کر نیچے گری ہے؟ حکومت نے ہر چیزکی قیمت میں استحکا م پیدا کر کے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے اور اگر کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری کر دی جائے گی مہنگائی کے ضمن میں حکومت جو
دوسرا وعدہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت منافع خوروں کوروز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہیں دے
گی سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ حکومت نے کسی بھی منافع خور کو قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی ہے ؟ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کسی بھی منافع خور کو کبھی لائسنس،پرمٹ یا این او سی جاری نہیں کیا اب اگر منافع خور حکومت سے اجازت لیے بغیر خود بخود قیمتوں میں اضافہ کرتے رہیں تو اس میں قصور حکومت کا ہے یا منافع خوروں کا؟ذرا سوچئیے حکومت پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ملک میں گندم ،چینی اور گھی وغیرہ کی مہنگائی اور نایابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بنیادی اشیاء بڑے پیمانے پر سمگل کر دی جاتی ہیں ان ان حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کو گندم،گھی اور چینی وغیرہ سے محروم کر کے ان اشیاء کو سمگل کرنا اور ان کے عوض سامان تعیش ملک میں باڑہ مارکیٹوں میں فروخت کرنا کہاں کا انصاف ہے؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گندم گھی چینی وغیرہ سمگلنگ حکومت کرتی ہے یا سمگلر حضرات؟ یہ حکومت بیچ میں کیسے آئی پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سمگر حضرات حکومت کی اجازت سے سمگلنگ کرتے ہیں؟یعنی جب یہ کالے لوگ کالے دھندے کی نہ تو حکومت لیتے ہیں اور نہ حکومت ہی ان کالے لوگوں کو کالے دھندے کی اجازت دیتی ہے اور یہ کالے لوگ خود ہی کالا دھندہ کرتے رہتے ہیں تو بتائیے حکومت بے چاری کیا کرسکتی ہے ؟آٹا گھی چینی گوشت وغیرہ ہر چیز کے بڑھتے ہوئے نرخوں سے بڑھتی ہوئی پریشانی سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ ہے مثلا گوشت کو ہی لے لیجیے صارفین گوشت کی مہنگائی کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے صارفین شہر شہر انجمنیں بنائیں اور اعلان کریں کہ ہم قصابوں کے قصاب پن سے نمٹنے کے لیے مسلسل چھ ماہ گوشت کا ناغہ کریں گے اور اس طرح قصابوں کو ہتھیار چھریاں ڈالنے پر مجبور کر دیں گے ضرورت ا س امر کی ہے کہ صارفین کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپنا ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھا جائے اس طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی پر خاطر خواہ قابو پایا جا سکتا ہے
131