چوہدری اشفاق/کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں سرکاری ملازمین کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ سرکاری ملازم کی کوئی پارٹی نہیں ہوتی وہ حکومتی نمائندے کے طور پر اپنے فرائض کی بجا آوری کرتاہے جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آ ئی تو ان کو اس حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں مو جودہ حکمرانوں نے اقتدار میں آنے سے قبل بہت بلند و بانگ دعوے کیا کرتی تھی کہ ہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پایا جانے والا فرق دور کریں گے مگراقتدار میں آنے کے بعد موجودہ حکومت نے سرکاری ملازمین اور ملک کے سب سے پسے ہوئے طبقے یعنی ملازمین کے حقوق مسلسل غضب کئے جانے کے پے درپے ہو گئی ہے موجودہ ہوشربا مہنگائی، بجلی گیس، پیٹرولیم مصنوعات، آٹا چینی اور دیگر اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے ملازمین کمر توڑ کر رکھ دی۔ اور اوپر سے آئی ایم ایف زدہ ظالمانہ بجٹ 2020-2021 میں ملکی 73 سالہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھا کر ملازمین کا معاشی، معاشرتی اور اخلاقی قتل کیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملازمین کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی نہیں دیکھا رہی۔ بلکہ الٹا دیگر ایسے حربوں اور افواہوں سے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کی جا رہی ہے ان کی سالانہ اینکریمنٹ بند کی جا رہی ہے مزید مالی وذہنی مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔ جس سے ملازمین میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے ملازمین ساری زندگی صرف پنشن کے حصول خاطر اپنی زندگی کا بہترین حصہ سرکار کی خدمت میں گزار دیتے ہیں جس کے پیچھے ان کا صرف ایک ہی مقصد کار فرما ہوتا ہے کہ پنشن ہو جائے گی تو بڑھاپے کا سہارا بن جائے گا لیکن جس طرح افواہیں گردش کر رہی ہیں ان کے مطابق تو سرکاری ملازمت اور پرائیویٹ جاب میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کے دو نہیں ایک پاکستان کے نعرہ میں ملازمین کو انکے بہتر مستقبل کی آس نظر آئی۔ مگر صد افسوس کہ 2 سال گزرنے کے باوجود غریب دیہاڑی دار مزدور، ڈیلی ویجیز ملازمین، درجہ چہارم اور کلرکس ملازمین کے حالات زندگی مزید دیگرگونا گوں مسائل سے دوچار ہو گئے ہیں موجودہ حکومت اپنی کسی بھی بات یا وعدے کی تکمیل نہ کر سکی ہے جو افواہیں سنائی دے رہی ہیں اگر ان میں کوئی صداقت نہیں ہے تو حکومت ملازمین میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرے اگر یہ افواہیں درست ہیں تو یہ غریب سرکاری ی ملازمین کا معاشی قتل ثابت ہوں گی۔روات کلرسیداں روڈ پر پچھلے ایک دو ماہ کے دوران لا تعداد ڈکیتی و قتل کی وارداتیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے آس پاس کے عوام میں سخت مایوسی پھیل چکی ہے لوگ گھروں سے باہر نکلنے میں خوف محسوس کر رہے ہیں اس روڈ کے تاجر یہاں سے بھاگنے کا سوچ رہے ہیں دکاندار اپنی دکانیں کھولنے سے گھبرا رہے ہیں روزانہ سفر کرنے والے افراد اپنی جیبوں میں زیادہ پیسے رکھنے سے کترا رہے ہیں یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ علاقہ غیر بنتا جا رہا ہے جہاں پر کوئی قانون موجود نہیں ہے نہ ہی کہیں کوئی پولیس دکھائی دے رہی ہے نہ ہی کوئی ایسا ادارہ نظر آ رہا ہے جو اس حوالے سے حرکت میں آئے لوگوں کو ان کا لوٹا ہوا مال واپس دلائے جو ان وارداتوں میں ملوث ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے مگر انتہائی افسوس کہ ابھی تک کسی ایک وارادت کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے وارداتوں کا سلسلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے اس میں کوئی زرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہو سکی ہے آ خرہماری پولیس کر کیا رہی ہے چند افراد کو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا جا سکا ہے ہماری پولیس کے اعلی حکام اس معاملے سے چشم پوشی کیوں اختیار کر رہے ہیں اگر پٹرولنگ پولیس کے ایس ایس پی حرکت میں آ سکتے ہیں تو پنجاب پولیس کے افسران کیوں بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں ساگری کے قریب ہونے والی دلیرانہ ڈکیتی کی وجہ سے ایس ایس پی پٹرولنگ پولیس راولپنڈی نے واردات کے روز ڈیوٹی پر مامور پٹرولنگ پولیس چوکپنڈوڑی کے انچارج سمیت پوری شفٹ کو معطل کرتے ہوئے ان کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور کچھ ہو نہ ہو مگر اس کا نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ پٹرولنگ پولیس چوکپنڈوڑی کا عملہ بلکل چوکس ہو چکا ہے اور ہر وقت گشت کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اب وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہوشیار بھی دکھائی دے رہے ہیں مگر پنجاب پولیس ضلع راولپنڈی کے افسران اس طرح کی کاروائی سے کیوں کترا رہے ہیں وہ بھی اگر اس طرح کا کوئی ایکشن لے لیتے تو آج شاید تھانہ روات ،کلرسیداں، اور پولیس چوکی چوکپنڈوڑی کے حالات میں بھی کوئی اس طرح کی تبدیلی دیکھنے کو ملتی مگر وہاں پر حالات ویسے کے ویسے ہی نظر آ رہے ہیں ان کی نظروں میں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے ساگری کے قریب اتنی بڑی ڈکیتی ہوئی ہے تھانہ روات سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی ہے پولیس چوکی چوکپنڈوڑی کی حدود شاہ باغ میں عاصم کریانہ سٹور پر کتنی بڑی ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے مگر مذکورہ پولیس چوکی کے عملے پر کوئی سختی نہیں کی گئی ہے کیا ہمارے عوام اپنے زہنوں میں یہ بات بٹھا لیں کہ ہماری پولیس کے اعلی حکام ہمارے تھانوں میں موجود بڑی بڑی مونچھوں والے شیر جوان بلکل بے بس ہو چکے ہیں ان تمام حالات و واقعات سے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ہماری پولیس واقع ہی نا اہل ہو چکی ہے جو کہ محکمہ پولیس کی سرا سر غفلت ہے افسران کو خواب غفلت سے جاگنا ہو گا تمام زمہ داران کو کٹہرے میں لانا ہو گا بصورت دیگر عوام کا پولیس پر سے اعتماد بلکل اٹھ جائے گا او اگر پولیس کے اعلی حکام نے ان وارداتوں کا نوٹس نہ لیا تو یہاں مکمل طور پر ڈاکو راج نافذ ہو جائے گا ۔
226