چوہدری محمد اشفاق/گزشتہ دو ماہ سے روات سے کلرسیداں روڈ پر ڈکیتیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ہر ہفتے کے بعد کوئی نہ کوئی ڈکیتی کی بڑی وارادت واقع ہو جاتی ہے جس وجہ سے اس روڈ کے تاجر غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تھانہ روات اور تھانہ کلرسیداں کے معاملات پولیس کے بجائے ڈاکووں نے سنبھال لئے ہیں۔ ایک ماہ قبل روات سے کلرسیداں روڈ پر ماں نی بنی میں ایک نوجوان تاجر کو سر شام لوٹ کربے دردی کے ساتھ قتل بھی کر دیا گیا ہے ایک ہفتہ قبل ریڈکو مل کے قریب دن دیہاڑے دودھ فروخت کر کے واپس آنے والے دو افراد کو دیدہ دلیری کے ساتھ اسلحہ کی نوک پر لوٹ لیا گیا ہے سوموار کے روز دن دیہاڑے شاہ باغ میں عاصم کریانہ سٹور کے مالک کو بھرے بازار کے سامنے تین ڈاکو نہایت ہی آسانی کے ساتھ ان سے پانچ لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے ہیں دکاندار روٹین کے مطابق اپنے کام میں مصروف تھا کے تین ڈاکو بمعہ اسلحہ اندر داخل ہوئے سب سے پہلے انہوں نے گارڈ بعدازاں باقی سٹاف اور دکان کے مالک کو قابو کیا اور ان سے سب کچھ چھیننے کے بعد بھاگ کلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں یہاں ایک خاص بات بتاتا چلوں کہ عاصم کریانہ سٹور پر یہ چوتھی واردات ہے اس دکان پر اس سے قبل بھی دو دفعہ چوری اور دو دفعہ ڈکیتی کی وارادت ہو چکی ہے اور حیرت والی بات یہ ہے کہ پولیس ابھی تک ان چاروں وارداتوں کا سراغ لگانے میں بری طرح ناکام ہے واردات کے بعد پولیس آتی ہے اوراپنے روایتی طریقے سے طفل تسلیاں دے کر واپس چلی جاتی ہے اور تھانے پہنچ کر بھول جاتی ہے کہ ہم کہاں گئے تھے اس طرح دن دیہاڑے اور بھرے بازاروں میں تاجروں کو کامیابی کے ساتھ لوٹنے والے گروہ کی وارداتوں کا طریقہ کار سن کے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی علاقہ غیر میں بیٹھے ہوئے ہیں اس طرح کی کامیاب وارداتیں تھانہ روات ،کلرسیداں اور پولیس افسران کیلیئے لمحہ فکریہ ہیں اب تک کے حالات و واقعات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ موٹر سائیکل سوار ڈکیت گروہ تھانہ روات و کلرسیداں کی پولیس سے زیادہ طاقتور ہے جس وجہ سے پولیس ابھی تک ان کو پکڑنے میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے پولیس کی عدم توجہی کی وجہ سے تاجر اپنی دکانوں کو ڈاکوﺅں کیلیئے بہترین پناہ گاہیں سمجھنے لگ گئے ہیں ان کے زہنوں میں یہ خیال پیدا ہو رہے ہیں کہ یہ دکانیں ہماری تو ہیں ہی نہیں بلکہ یہ تو ان ڈاکوﺅں کی ملکیت بن چکی ہیں جو بلکل تسلی سے اور بلا خوف و خطراندر داخل ہوتے ہیں اور دن بھر کی کمائی با آسانی چھین کر فرار ہو جاتے ہیں ان کوپکڑنے والا کوئی بھی موجود نہیں ہے جو دکاندار چند سالوں میں چار دفعہ لٹ چکا ہے اس کی دکان کے مالک تو وہی ڈاکو ٹھہرے نا جو کوئی انویسٹمنٹ کرنے کے بغیر دکان کی کمائی سے مستفید ہو رہے ہیں آخر ہماری پولیس کر کیا رہی ہے کسی پر کوئی ایک معمولی سی درخواست ہو جائے تو پولیس دونوں پارٹیوں کا کچومر نکال دیتی ہے مدعی اور ملزمان پارٹی کے پورے خاندان کو تھانے میں رلاتی ہے اور اسی پولیس سے محض چند ڈاکو پکڑے نہیں جا رہے ہیں اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کے جب کوئی گاہک کسی دکان پر جاتا ہے تو دکاندار پہلے اس کو نیچے سے اوقپر تک شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ کوئی ڈاکو تو نہیں ہے وارداتوں کا یہ سلسلہ کم نہیں بلکہ مزید بڑھتا جا رہا ہے چند یون قبل روات میں بھی ڈکیتی کی ایک واردات رونما ہو چکی ہے جس میں ناکام ڈکیتی پر ڈاکوﺅں نے دکاندار کو گولیاں مار دی ہیں اور ایکروز موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد وہ دکاندار مر گیا ہے اس واردات کے ملزمان بھی با حفاظت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں ابھی عوام علاقہ ان وارداتوں کے ملزمان پکڑنے کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ ہفتہ کی رات روات کلرسیداں روڈ پر ساگری کے قریب بیرون ملک سے واپس آنے والی فیملی کو لوٹ لیا گیا ہے اور ان پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک مرد اور ایک عورت شدید زخمی ھالت میں ہسپتال منتقل کر دیئے گئے ہیں وہ لوگ کیا سوچ رہے ہوں گئے کہ ہم کس ملک کس علاقہ میں بھول کر آ گئے ہیں جہاں ہماری جمع پونچھی تو گئی ہی گئی ہے وہاں ہماری جانیں بھی ضائع ہونے کا سخت اندیشہ موجود تھا اس روڈ کو اب اگر موت کی روڈ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا روات سے کلرسیداں روڈ پر ایک انسان کی جان کی قیمت محض ایک پھٹے شاپر کے برابر رہ گئی ہے تھانہ روات اور کلرسیداں کے معاملات ڈکیت گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے ہیں آئے روز ڈکیتیاں مزاحمت پر قتل و زخمی ہونا اب ایک معمول بن چکا ہے حکومتی نمائندے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں خاص کر جو واردات پولیس چوکی چوکپندوڑی کی حدود میں واقع ہو اس کے ٹریس ہونے کا تصور بھی نا ممکن ہے نہ جانے اس چوکی کو کس کی نظر لگ گئی ہے یہاں پر کسی اچھے افسر یا اہلکار کی تعیناتی خام خیالی کی صورتحال اختیار کر چکی ہے یہ چوکی دارداتیوں کیلیئے ایک بہترین حفاظت گاہ کی بن چکی ہے اس پولیس چوکی کی حدود میں پچھلے ایک لمبے عرصے سے بے شمار ایسی وارداتیں واقع ہو چکی ہیں جن کے مدعی دھکے کھا کھا کر مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ چکے ہیں اس چوکی کو اگر دکان کہا جائے تو بہت بہتر سمجھا جائے گا تھانہ روات و کلرسیداں کے سٹاف کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا یہ ڈکیت گروہ عوام کے ساتھ ساتھ پولیس کیلیئے بھی سر درد بنتا جا رہا ہے پولیس کے اعلی حکام کو بھی اس صورتھال کا سختی سے نوتس لینا ہو گا بصورت دیگر پولیس پر سے عوام کا اعتماد بلکل اٹھ جائے گا ۔
208