101

بینکوں کا شہر

مبین مرزا
’’بینکوں کے شہر ‘‘ سے یقیناً کسی ترقی یافتہ مغربی ملک کے انتہائی ترقی یافتہ شہر کا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جہاں دولت و ترقی کی اتنی ریل پیل ہو اس ریل پیل کو قائم دائم رکھنے کے لئے بے شمار بینکوں کا وجود انتہائی ضروری ہو۔ مگر صاحب ’’بینکوں کا شہر‘‘ کا خطاب میں نے کسی مغربی ملک کے کسی شہر کے لئے استعمال نہیں کیا ، بلکہ ایک ترقی پذیر ملک پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر ’’گوجرخان‘‘ کیلئے استعمال کیا ہے۔ کسی بھی علاقے میں بینک کا وجود وہاں کے تجارتی و معاشی تحرک کی علامت ہوتا ہے۔ مراد یہ کہ جہاں بینک ہو گا وہاں پر تجارتی سرگرمیاں جاری و ساری ہو تی ہیں اور لین دین کا بیشتر کام، گارنٹی و ضمانت کیساتھ ساتھ رقم کی حفاظت لئے بینک ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔
یہاں آپ یقیناًسوال کریں گے کہ اس دور میں تو بینک تقریباً ہر علاقے میں موجود ہوتے ہیں تو اس میں اچنبے والی کون سی بات ہے، اور گوجرخان کو بینکوں کا شہر کیوں کہا جا رہا ہے۔ تو صاحب یقیناًبینک ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود ہوتے ہیں ۔ مگر جس پیمانے کے مطابق اپنے شہر گوجر خان کو بینکوں کا شہر کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں شائد ہی کسی شہر میں صرف آدھ کلومیٹر ریڈیس میں بائیس(24) بینک موجود ہوں وہ بھی تمام کے تمام کامیاب اور منافع بخش پوزیشن میں۔ آپ یقیناًحیران ہوں گے کہ اگر آپ گوجرخان چوک میں کھڑے ہوں تو آپ کے چاروں طرف صرف آدھے کلومیٹر کے اندر24 بینک موجود ملیں گے اور تین بینک تو ایسے بھی ہے کہ جن کی ایک برانچ جی ٹی روڈ کے اس طرف تو دوسری برانچ جی ٹی روڈ کے دوسری طرف موجود ہے۔ صرف 15سیکنڈ میں رقم کی ادائیگی کے لئے 15 ATM مشینیں موجود ہیں ۔یہ تمام سہولیات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ روپے پیسے کی ریل پیل کے لحاظ سے واقعی’’ گوجرخان بلکہ پوری تحصیل گوجر خان‘‘ پاکستان کی سب سے امیر ترین تحصیل ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ یہاں میں نے پوری تحصیل میں موجود بینکوں کی تعداد نہیں لکھی۔ صرف آدھا کلومیٹر ریڈیس میں چوبیس بینکوں کی موجودگی جہاں اس شہر کی جاندار تجارتی سرگرمیوں کی غمازی کرتی ہے وہاں اس تحصیل کے دیار غیر میں بسنے والے ہزاروں افرادکی نشاندہی کرتی بھی نظر آتی ہے، جو کہ اپنے خون پسینے کی کمائی زر مبادلہ کی شکل میںیہاں کے بینکوں اور کرنسی ایکسچنج کے ذریعے بھیجتے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ماہ لاکھوں نہیں کروڑوں کے حساب سے رقوم دیار غیر سے ارسال کرتے ہیں ۔
یہاں ایک بات ذرا قابل غور ہے۔۔۔ وہ یہ کہ پیسے کی اتنی زیادہ ریل پیل کا ہمارے شہر میں مصرف کیا ہے؟
بادی النظر میں چند عام مصرف آپکے سامنے پیش خدمت ہیں جو اہل فکر و دانش کے لئے ایک سوال کی حیثت رکھتے ہیں۔
*کئی کئی کنال پر محیط بلند و بالاکوٹھیوں کی تعمیر جو اپنے مکینوں سے محروم صرف غریب رشتہ داروں پر رعب جمانے کے کام آتی ہیں۔ جبکہ ان کی حفاظت پر مامور خانہ بدوش پٹھان اس کی پُر تعیش سہولیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
* اس کے علاوہ ان رقوم کا ایک بڑا حصہ گُھڑ دوڑ، بیل دوڑ اور کتوں کی ریس اور کتوں کی لڑائیوں جیسے میلوں ٹھیلوں کی نذر ہوتا ہے۔
*ایک اور رجحان پراپرٹی کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے، اس لئے رقم کا لین دین رہائشی و کمرشل پلاٹس کی خرید و فروخت پر ہوتا ہے۔ اس طرح کی تمام خرید و فروخت سے صرف کاغذات پر ملکیت تبدیل ہوتی ہے جبکہ دو چیزیں اپنی ہی جگہ پر موجود رہتی ہیں۔ ایک پلاٹ یا پلازہ اور دوسری’’ رقم‘‘۔
آپ پوچھیں گے کہ رقم کس طرح ؟ وہ ایسے کہ جو بندہ پراپرٹی خریدتا ہے وہ بنک سے رقم نکال کر فروخت کنندہ کو دیتا ہے۔ اور فروخت کنندہ وہ رقم پھر سے بنک میں جمع کروادیتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ روپے پیسے کی اتنی ریل پیل کے باوجود ہمارے علاقے کے سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان بیروزگار ہیں۔ ہر طرح کا خام مال ، ذہین ترین افرادی قوت اور بے شمار پیسہ ہونے کے باوجود شہر میں صنعتوں ،کارخانوں کی عدم موجودگی دیار غیر میں مقیم اہل ثروت اور ہمارے صاحبان ارباب و اختیار کے لئے ایک چبھتا ہوا سوال ہے؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں